بچپن کی زنجیروں کو توڑنے والے ہی بڑے ہوتے ہیں، باقی سب بڑے قد کے بچے رہ جاتے ہیں….

بچپن میں سنی ہوئی باتیں انسان کے دل و دماغ میں اس طرح بیٹھ جاتی ہیں کہ بڑے ہو کر بھی اکثر ہم ان کے قیدی رہتے ہیں۔ کوئی ہمیں کہہ دے کہ تم یہ کام نہیں کر سکتے، تو وہ جملہ ہمارے ذہن میں گونجتا رہتا ہے۔ کوئی ہمیں یہ سکھا دے کہ پیسہ کمانا مشکل ہے یا دوسروں سے آگے نکلنا گناہ ہے، تو ہم پوری زندگی اسی خوف کے ساتھ جیتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم سوچتے ہیں کہ ہم بڑے ہوگئے ہیں، آزاد ہوگئے ہیں، لیکن اصل میں بچپن کی وہی پرانی پروگرامنگ ہمیں چلا رہی ہوتی ہے۔

مجھے کئی لوگ ملے ہیں جو اپنی زندگی کے فیصلے خود نہیں کر پاتے۔ اگر ان سے پوچھو کہ یہ راستہ کیوں چُنا؟ تو اکثر جواب ملتا ہے: “امی نے کہا تھا، ابو چاہتے تھے، یا یہی معاشرے کا اصول ہے۔” وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا فیصلہ ہے، حالانکہ یہ تو وہی پروگرام ہے جو برسوں پہلے ان کے دماغ میں ڈال دیا گیا تھا۔ جیسے کمپیوٹر میں پرانا سافٹ ویئر چلتا رہے اور نیا انسٹال ہی نہ ہو۔

سب سے زیادہ نقصان اس وقت ہوتا ہے جب یہی سوچ بزنس یا کام کے میدان میں آتی ہے۔ اکثر لوگوں کو بچپن سے یہ کہا جاتا ہے کہ “رسک مت لینا، محفوظ راستہ بہتر ہے۔” نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بڑے ہو کر بھی وہ کبھی اپنی دکان، کاروبار یا نیا آئیڈیا شروع کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ حالانکہ بزنس کی اصل روح ہی رسک ہے۔ لیکن وہ پرانی آوازیں کانوں میں گونجتی رہتی ہیں: “کہیں ناکام ہو گئے تو؟ لوگ کیا کہیں گے؟” یوں خواب دیکھتے ہیں مگر آگے قدم نہیں بڑھاتے۔

سچ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ کبھی سوال ہی نہیں کرتے کہ “کیا یہ میرا یقین ہے یا مجھے بچپن میں دیا گیا تھا؟” ہم بغیر سوچے مان لیتے ہیں کہ یہی زندگی ہے۔ اسکول میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ نمبر سب کچھ ہیں، نوکری ہی کامیابی ہے، غلطی کرنا شرمندگی ہے۔ ہم ان باتوں کو ایسے لے لیتے ہیں جیسے یہ پتھر پر لکھی گئی سچائیاں ہوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے ہو کر بھی ہم خواب دیکھنے سے ڈرتے ہیں، ناکامی کو ذلت سمجھتے ہیں اور دوسروں کے معیار پر اپنی کامیابی تولتے ہیں۔

میں نے اپنی زندگی میں یہ سیکھا ہے کہ اگر آپ ان پرانی زنجیروں کو توڑنا چاہتے ہیں تو نئے تجربات، نئے لوگ، اور نئی سوچ کو قریب لانا ہوگا۔ بزنس میں بھی اصل کامیابی اسی وقت ملتی ہے جب انسان ڈر سے آزاد ہو کر رسک لیتا ہے۔ کیونکہ وہی رسک جو دوسروں کو خطرہ لگتا ہے، اکثر آپ کے لیے سب سے بڑی کامیابی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ انسان غور کرے، سوچے اور سیکھے۔ اللہ نے ہمیں عقل دی ہے تاکہ ہم پرانی رکاوٹوں سے آزاد ہوں اور اپنی اصل فطرت یعنی فطرتِ سلیمہ کی طرف پلٹیں۔

آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ جو شخص اپنے بچپن کی پروگرامنگ کو پہچان کر اسے بدلنے کی ہمت کرتا ہے، وہی اصل میں بڑا ہوتا ہے۔ باقی سب صرف بڑے قد کے بچے رہ جاتے ہیں۔

About the Author

Qasim

Hello! I'm Qasim, an entrepreneur since 2009 and experience in digital assets creation, branding, and tourism marketing. I co-founded successful ventures in the hospitality industry, and my love for travel has taken me to amazing places like the UAE and Qatar. My blog shares insights from my journey in hospitality, travel adventures, entrepreneurship, and digital marketing, with a focus on Qatar tourism and road trips. Let's connect and explore the world together!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these