ہم جب قرآن کو کھولتے ہیں تو اکثر اسے صرف ایک عبادتی کتاب کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن صرف نماز، روزہ اور عبادات کی کتاب نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو کے لیے رہنمائی دیتا ہے۔ اگر غور سے پڑھا جائے تو قرآن میں کاروبار اور تجارت کے ایسے اصول موجود ہیں جو آج بھی ہر کامیاب بزنس کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
سب سے پہلی بات جو قرآن ہمیں سکھاتا ہے وہ ہے ایمانداری اور دیانت۔
قرآن میں بار بار حکم دیا گیا ہے کہ ناپ تول میں کمی نہ کرو اور دوسروں کا حق نہ مارو:
“پورا ناپ اور پورا وزن انصاف کے ساتھ دو، اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔” (الاعراف: 85)
یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل کامیابی وہ ہے جس میں دھوکہ نہ ہو۔ کاروبار میں وقتی نفع تو شاید مل جائے، لیکن دیانت ہی وہ بنیاد ہے جو اعتماد پیدا کرتی ہے۔
دوسرا سبق ہے عہد و پیمان پورا کرنا۔
“اور عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کے بارے میں سوال ہوگا۔” (بنی اسرائیل: 34)
کاروبار میں وعدے اور معاہدے کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ اگر ایک بزنس مین اپنی زبان کا پکا نہیں تو اس کا پورا سسٹم ٹوٹ جاتا ہے۔
تیسرا اہم اصول ہے اعتدال اور میانہ روی۔
“اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل، بلکہ ان دونوں کے درمیان اعتدال اختیار کرتے ہیں۔” (الفرقان: 67)
یہ اصول آج کے بزنس میں بجٹ اور سرمایہ کاری پر عین صادق آتا ہے۔ بہت زیادہ فضول خرچ کرنا کمپنی کو تباہ کر دیتا ہے اور حد سے زیادہ بخل ترقی کو روک دیتا ہے۔
قرآن ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ معاملات کو لکھ کر محفوظ کرنا چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن کی سب سے طویل آیت (البقرہ: 282) قرض اور لین دین کے بارے میں ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہر معاملہ تحریری ہونا چاہیے تاکہ کوئی جھگڑا نہ ہو۔ آج کے دور میں یہ اصول اکاونٹنگ، آڈٹ اور ڈاکیومنٹیشن کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
اسی طرح ایک اور سبق ہے ملازمین اور مزدوروں کے ساتھ انصاف۔
قرآن میں انصاف کو بار بار بنیادی شرط کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اگر ایک کاروبار اپنے ورکرز کے ساتھ انصاف نہیں کرتا تو وہ نظام کبھی پائیدار نہیں رہ سکتا۔
قرآن ہمیں حرام ذرائع سے بچنے کی بھی ہدایت دیتا ہے
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔ (النساء: 29)
اس میں سود، رشوت اور دھوکہ سب شامل ہیں۔ ایک بزنس اگر حرام طریقے پر کھڑا کیا جائے تو وہ وقتی طور پر کامیاب لگے گا مگر اس میں برکت نہیں ہوگی۔
اور سب سے خوبصورت سبق ہے شکرگزاری۔
اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔ (ابراہیم: 7)
یہ اصول صرف بزنس ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں لاگو ہوتا ہے۔ ایک شکر گزار انسان کے کام میں اللہ برکت ڈال دیتا ہے، اور تھوڑا بھی کافی ہو جاتا ہے۔
میری نظر میں اصل کامیاب بزنس وہ ہے جو صرف نفع کے لیے نہ ہو بلکہ خدمت اور دیانت کے ساتھ ہو۔ جب ہم اپنے بزنس کو قرآن کے اصولوں پر استوار کرتے ہیں تو صرف دنیاوی کامیابی نہیں بلکہ سکون اور برکت بھی ساتھ ملتی ہے۔