بی کام (گریجویشن) ختم ہوا تو دل میں بس ایک ہی خواہش تھی — جلدی سے کچھ بننا ہے۔۔ کچھ ایسا کرنا ہے جس سے خود بھی فخر ہو اور گھر والے بھی کہیں، “ہاں، اب بیٹا سیٹ ہو گیا ہے۔
پہلی بار الائیڈ بینک لمیٹڈ میں تین ماہ کی انٹرن شپ ملی، جو شوق، کام سیکھنے کے جذبے اور بینک کی ٹیم کے ساتھ اچھی بانڈنگ کی وجہ سے میں نے چھ ماہ تک بڑھوا لی۔ اُس وقت دفتر کی ہر چیز نئی لگتی تھی — ای میل لکھنا، فائلز سنبھالنا، سینئرز سے بات کرنا۔ لیکن انہی چھ مہینوں میں سمجھ آگیا کہ اکاؤنٹس صرف نمبروں کا کھیل نہیں، بلکہ اعتماد اور ذمہ داری کا کام ہے۔
انٹرن شپ کے بعد ایک گروپ آف کمپنیز میں جاب ملی جو ہیوی مشینری اور جنریٹرز امپورٹ کرتی تھی۔وہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملا — ہر دن ایک نیا تجربہ، ایک نیا سبق۔ اسٹاک، کسٹم کلیئرنس، بینکنگ ڈاکیومنٹس — سب کچھ ایک نیا جہاں تھا۔ انہی دنوں میں فیضان کے ساتھ دوستی اور گہری ہو گئی۔ وہ میرا کالج کا دوست بھی تھا اور اتفاق سے ہم دونوں اسی کمپنی میں ساتھ ساتھ کام کر رہے تھے۔
وقت گزرتا گیا۔ فیضان کو ایک بینک میں اچھی جاب مل گئی اور وہ کمپنی کی نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔ میں ابھی اسی کمپنی میں تھا کہ ایک دن فیضان کا فون آیا۔
:اس نے کہا
“یار ایک ریفرنس کے ذریعے افغانستان، کابل میں جاب کا موقع ہے۔ اکاؤنٹس کا کام ہے، تنخواہ ڈالرز میں ملے گی۔ کرے گا؟”
میں نے ایک لمحے کے لیے بھی سوچا نہیں۔ بس جواب دیا،
“ہاں، کر لیتے ہیں۔”
شاید اُس وقت یہ فیصلہ دل نے کیا تھا، دماغ نے نہیں۔ مگر زندگی کی خوبصورتی ہی یہی ہے — جو فیصلے جذبات سے ہوتے ہیں، وہی سب سے یادگار نکلتے ہیں۔
آن لائن انٹرویو ہوا، اور حیرت انگیز طور پر کامیاب بھی ہو گیا۔ ایک مہینے کے اندر ویزا ہاتھ میں تھا۔
یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا جب میں اتنے لمبے عرصے کے لیے گھر سے دُور جا رہا تھا۔ دل میں ایک عجیب سا جوش تھا — ڈر بھی، لیکن خواب زیادہ بڑے تھے۔
جس کمپنی میں مجھے جاب ملی، اس کا نام تھا وِکٹر پائپ انڈسٹری۔ یہ کابل کے انڈسٹریل ایریا میں ایک بڑی فیکٹری تھی، جہاں میرا کام اکاؤنٹس اینڈ فنانس سے متعلق تھا۔ اور ہاں، تنخواہ واقعی ڈالرز میں تھی — اُس زمانے میں یہ بات ہی ایک الگ فخر تھی۔
اسلام آباد سے پشاور، پھر طورخم بارڈر، اور وہاں سے کابل تک سڑک کے راستے جانا ہوتا تھا۔
اس سفر کی اپنی ایک الگ دنیا تھی — پہاڑ، فوجی چوکیاں، دھول، اور ہر بارڈر پر مختلف لہجے۔
لوگ جب سنتے کہ میں افغانستان جا رہا ہوں تو حیران ہو جاتے۔
“یار، وہاں تو بہت خطرہ ہے!”
میں بس مسکرا دیتا۔ شاید اُن کے لیے خطرہ تھا، مگر میرے لیے یہ زندگی کا سب سے بڑا ایڈونچر بننے جا رہا تھا۔