خود کی تعمیر: ہم اور ہمارا معاشرہ

خود کی تعمیر: ہم اور ہمارا معاشرہ

ہم خود کو کیوں دھوکہ دیتے ہیں؟

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ انسان دوسروں سے زیادہ خود کو کیوں دھوکہ دیتا ہے؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر ہم سچ جانتے ہیں، مگر پھر بھی اُس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ جیسے دماغ کے اندر ایک وکیل بیٹھا ہو، جو ہر غلط بات کے لیے فوراً کوئی دلیل گھڑ دیتا ہے، تاکہ ضمیر کو چپ

خود کی تعمیر: ہم اور ہمارا معاشرہ

انسان کو سکون کیوں نہیں ملتا؟

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں آرام میسر ہے مگر سکون نایاب۔ دن رات دوڑ ہے، لیکن کسی منزل کا یقین نہیں۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ آگے نکل جائے، زیادہ حاصل کرے، زیادہ کمائے، زیادہ دکھائے۔ لیکن جوں جوں چیزیں بڑھتی ہیں، اطمینان کم ہوتا جاتا ہے۔ جیسے سکون کا تعلق دولت یا کامیابی سے

خود کی تعمیر: ہم اور ہمارا معاشرہ

ہم سب کے اندر ایک چھوٹا سا “فرعون” زندہ ہے

کبھی کبھی سوچتا ہوں، انسان کے اندر یہ خواہش کیوں ہے کہ وہ یاد رکھا جائے؟ یہی جذبہ شاید فرعون کے اہرام کا سبب بنا — وہ چاہتا تھا کہ مرنے کے بعد بھی دنیا اُس کا نام یاد رکھے۔ ہزاروں سال گزر گئے، لوگ اب بھی اُسے یاد کرتے ہیں، مگر صرف اس کے مقبرے کو دیکھنے جاتے ہیں،

خود کی تعمیر: ہم اور ہمارا معاشرہ

بنی اسرائیل کے ہفتے کے شکار کی کہانی: کیا آج ہم بھی اسی راستے پر ہیں؟ کہیں ہم بھی اُن خاموش تماشائیوں میں نہ لکھ دیے جائیں

آج بنی اسرائیل کی آزمائش کا ذکر پڑھ کر دل بوجھل ہو گیا۔ یہ قصہ بنی اسرائیل کا ہے، اور قرآن میں بھی ذکر ملتا ہے۔ اللہ نے ان پر ایک حکم اتارا کہ ہفتے کے دن مچھلی کا شکار نہ کریں۔ بس وہ دن اُن کے لیے امتحان بنا دیا گیا۔ کمال یہ تھا کہ ہفتے کے دن مچھلیاں

خود کی تعمیر: ہم اور ہمارا معاشرہ

خاموش زہر: مقابلہ بازی کا کلچر

ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں دوسروں کی زندگیاں ہماری نظروں کے سامنے آ جاتی ہیں۔ انسٹاگرام کی ایک اسکرول پر مہنگی گاڑیاں، پرتعیش چھٹیاں، ترقی کے اعلانات اور “پرفیکٹ” خاندان ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ بظاہر دلکش ہے مگر اس کے پیچھے ایک خاموش زہر چھپا ہے: مقابلہ بازی کا کلچر۔ یہ کلچر ہمیں

خود کی تعمیر: ہم اور ہمارا معاشرہ

خوشی کے فریب میں قید نسل: پرفیکٹ لائف کا جھوٹا پردہ — ڈیلی ولاگنگ کا کڑوا سچ

جب انٹرنیٹ آیا تھا تو ہمیں لگا تھا کہ اب علم کے دروازے کھل جائیں گے، سوچ کے نئے جہان سامنے آئیں گے اور ہر شخص اپنی مرضی سے کتاب پڑھ سکے گا، فلم دیکھ سکے گا یا اپنی پسند کا مواد منتخب کر سکے گا۔ خیال یہ تھا کہ یہ آزادی ہمیں زیادہ باشعور، زیادہ بیدار اور زیادہ طاقتور

خود کی تعمیر: ہم اور ہمارا معاشرہ

بچپن کی زنجیروں کو توڑنے والے ہی بڑے ہوتے ہیں، باقی سب بڑے قد کے بچے رہ جاتے ہیں….

بچپن میں سنی ہوئی باتیں انسان کے دل و دماغ میں اس طرح بیٹھ جاتی ہیں کہ بڑے ہو کر بھی اکثر ہم ان کے قیدی رہتے ہیں۔ کوئی ہمیں کہہ دے کہ تم یہ کام نہیں کر سکتے، تو وہ جملہ ہمارے ذہن میں گونجتا رہتا ہے۔ کوئی ہمیں یہ سکھا دے کہ پیسہ کمانا مشکل ہے یا دوسروں

خود کی تعمیر: ہم اور ہمارا معاشرہ

سفر اگر غور و فکر کے بغیر ہو… تو صرف جغرافیہ ہے

جب بھی میں سفر پر نکلتا ہوں تو میرے اردگرد کے لوگ اکثر ایک ہی بات پوچھتے ہیں: کتنے ملک دیکھے ہیں؟ کتنی جگہوں پر گئے ہو؟ اور میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر سفر صرف گنے جانے والے ممالک اور پاسپورٹ پر لگنے والی مہروں کا نام ہے تو پھر یہ محض جغرافیہ ہے۔ اصل سفر وہ ہے جو

خود کی تعمیر: ہم اور ہمارا معاشرہ

اٹلی کے عظیم شاعر گایو آیون کی نظم”سفر پر نکلو” کا اردو ترجمہ

سفر پر نکلوکیونکہ اگر تم سفر نہیں کرتےتو تمہارے خیالات کو مضبوطی نصیب نہیں ہو سکے گی اور تمہارے خیالات کی جھولی عظیم ترین نظریات سے لبریز نہ ہو سکے گیتمہارے خواب کمزور، ناتواںاور لرزتی ٹانگوں کے ساتھ جنم لینگےاور پھر تمہارے یقین کا مرکز و محور ٹیلی ویژن شو ہی رہ جائینگےیا پھر وہ لوگ کہ جو درندہ صفت دشمنوں