ریسٹورنٹ کھولنا آسان… چلانا فن — پاکستان کی سب سے مشکل انڈسٹری کے راز

ہر انسان جو کاروبار کرنا چاہتا ہے، اس کے دل میں ایک نہ ایک بار یہ خواہش ضرور آتی ہے کہ کاش میرا بھی ایک خوبصورت سا ریسٹورنٹ ہو۔ لکڑی کی میزیں، ہاتھ سے پالش کی ہوئی کرسیاں، ہلکی سی رومانٹک روشنی، اور خوبصورتی سے ترتیب دیا ہوا مینو اور کہیں نہ کہیں اندر ایک خیال کہ “گیسٹ آئیں گے، تعریف کریں گے، اور کاروبار دنوں میں چل پڑے گا۔”

لیکن یہ خواہش پاکستان میں صرف سننے تک تو بہت حسین لگتی ہے… حقیقت میں یہ وہ خواب ہے جس کا وزن بہت کم لوگ اٹھا پاتے ہیں۔

ہمارے ملک میں سب سے زیادہ جو کاروبار کھلتا ہے، وہ ریسٹورنٹ ہے۔
اور دلچسپ (اور تھوڑا افسوسناک) حقیقت یہ ہے کہ بند بھی سب سے زیادہ یہی ہوتے ہیں۔
لوگ بہت امید کے ساتھ آتے ہیں، جذبے کے ساتھ آتے ہیں، لیکن آگے بڑھ نہیں پاتے۔

کیوں؟

کیونکہ ریسٹورنٹ چلانا کسی کیفے کی سوچ یا کسی خوبصورت جگہ کے خواب کا نام نہیں۔
یہ مکمل طور پر ایک فیکٹری چلانے کے برابر ہے—جہاں ہر سیکنڈ، ہر عمل، اور ہر آدمی ایک مشین کے پرزے کی طرح جڑا ہوا ہوتا ہے۔
صرف وہ لوگ بچتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہ کام “فن” سے زیادہ “نظم” مانگتا ہے، اور “جذبے” سے زیادہ “استقامت۔”

ریسٹورنٹ کے پیچھے جو دنیا ہے، وہ عام آنکھ نہیں دیکھتی۔
گیسٹ صرف پلیٹ دیکھتا ہے… لیکن مالک پلیٹ کے پیچھے کھڑی پوری جنگ دیکھتا ہے۔
روزانہ کا فریش مال، سبزی، گوشت، سپلائر کی تاخیر، اسٹاف کی غیرحاضری، بجلی کا مسئلہ، گیس پریشر، کچن کا موڈ، باریکیوں کی نگرانی، صفائی، ذائقے کا تسلسل…
یہ سب مل کر ایک ’پلیٹ‘ بنتے ہیں۔

اور پھر گیسٹ پانچ سیکنڈ میں فیصلہ کرتا ہے: اچھا ہے یا برا۔

پاکستان میں موسمی اثرات بھی ایک الگ امتحان ہیں—
بارش ہو تو رش کم، دھوپ ہو تو زیادہ، کرکٹ میچ ہو تو ہال خالی، احتجاج ہو تو راستے بند، الیکشن ہوں تو کاروبار سست۔
یہ وہ چیزیں ہیں جو کتابوں میں نہیں ملتیں مگر کاروبار کی ہڈیاں چبھا دیتی ہیں۔

ریسٹورنٹ چلانے کا سب سے بڑا فن “تسلسل” ہے۔
آج اچھا کھانا بنا لینا کوئی کمال نہیں…
ہر روز ایک جیسا معیار دینا اصل امتحان ہے۔
شیف کا موڈ بدل جائے، اسٹاف تھک جائے، سپلائر اچانک چیزیں مہنگی کر دے… صرف ایک دن کی گڑبڑ سے گیسٹ کا دل بدل جاتا ہے۔

اور ایک بات میں ہمیشہ دل سے مانتا ہوں: لوگ اکثر کہتے ہیں کہ ریسٹورنٹ کو فل آٹومیٹ کیا جا سکتا ہے۔ بس سسٹمز بنا دو، عملہ ٹرین کر دو، سب کچھ خود بخود چل پڑے گا۔ یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے، لیکن ایک پوائنٹ کے بعد مشینیں، طریقے اور سسٹمز پیچھے رہ جاتے ہیں… اور شیف کا ہاتھ، اس کی مہارت اور اس کا دل آگے آ جاتا ہے۔

فاسٹ فوڈ چینز میں شاید کھانا ایک ہی ذائقے میں تیار ہو جائے، کیونکہ وہاں فارمولے ہیں، پری میپنگ ہے، ٹائمر ہے۔ لیکن فائن ڈائننگ میں، یا ان جگہوں پر جہاں لوگ ذائقے کے تجربے کے لیے آتے ہیں… وہاں انسانی شمولیت کے بغیر کچھ بھی مکمل نہیں ہوتا۔

کھانے میں ایک چھوٹا سا فرق، مصالحے کا ہلکا سا توازن، گوشت کا ایک منٹ زیادہ یا کم پک جانا… یہ سب چیزیں صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو برسوں کچن کی تپش میں کھڑا رہا ہو۔ اسی لیے میرا ماننا ہے کہ کچھ کام صرف انسان ہی پورے احساس کے ساتھ کر سکتا ہے۔ ریسٹورنٹ ایک انسانی کام ہے، مشینوں کی فیکٹری نہیں۔

پھر بھی… ان سب مشقتوں کے بعد
اس سفر میں ایک عجیب خوبصورتی ہے۔

اور سچ تو یہ ہے کہ میں ہمیشہ مانتا ہوں:
گیسٹ کے چہرے کی خوشی وہ بتا دیتی ہے جو کوئی فیڈبیک فارم نہیں بتا سکتا۔
کاغذ پر لکھے دو جملوں سے زیادہ وزن ایک مسکراہٹ رکھتی ہے،
اور “زبردست ذائقہ!” جیسا ایک جملہ پوری ٹیم کو پورا دن ہلکا کر دیتا ہے۔

ریسٹورنٹ ایک کاروبار نہیں، ایک مسلسل امتحان ہے، لیکن اگر آپ یہ امتحان دل سے دیں…
تو یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ نہ صرف لوگوں کے پیٹ بلکہ دل بھی جیتتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these

No Related Post