پانچ دوست، ایک پراڈو اور ناران کا پہلا دن

یہ سب آغاز ہوتا ہے جمعرات کی رات، تین اکتوبر 2024 کو۔ ان دنوں ہر دوسرے دن دھرنے ہو رہے تھے، اس لیے یاد نہیں کہ وہ کون سا دھرنا تھا — بس اتنا پتا تھا کہ صبح تک جی ٹی روڈ بند ہو جائے گی۔ تو پلان یہ تھا کہ ٹریفک سے بچنا ہے اور کسی طرح ناران پہنچنا ہے بس۔ ٹیم میں تھے سلمان خان، ریحان، فیضان، سلمان شیخ اور صفدر ماموں۔

رات کے بارہ بجے دنیا سو رہی تھی اور ہم نکلنے کی تیاری میں تھے۔ صفدر ماموں اور میں پہلے سے خانپور میں موجود تھے جبکہ فیضان، سلمان خان اور سلمان شیخ ٹیکسلا اور واہ کینٹ سے نکلے۔ ہم سب نے اپنا سامان صفدر ماموں کی پراڈو میں ٹھونس دیا، جو اب ایک آف روڈ ایڈونچر گاڑی میں بدل گئی تھی۔

رات کا ایک بجا اور ہم خانپور سے نکل پڑے۔ سنسان سڑک، ٹھنڈی ہوا اور وہ احساس جیسے کوئی خفیہ مشن شروع کر دیا ہو۔

ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم ایبٹ آباد پہنچے جہاں سے ریحان کو لینا تھا۔ وہ ایسے نکلا جیسے پورے قافلے کا کیمپ ماسٹر ہو — ہاتھ میں کیمپنگ کا سامان، باربی کیو کی تیاری اور ایسا اعتماد جیسے سب پلان اسی کے دم پر ہے۔ سامان لادنے کے بعد ہم بالاکوٹ کی طرف نکلے اور فجر کے وقت کوردیلا ریزورٹ پر مختصر قیام کیا۔

یہ ہماری عادت سی بن گئی ہے کہ جب بھی ناران کا سفر کرتے ہیں تو بالاکوٹ کے اس ریزورٹ پر ضرور رک جاتے ہیں۔ پہاڑوں کے دامن میں، دریا کے کنارے بنا ہوا یہ پرسکون ریزورٹ ایک چھوٹا سا ریفریش بریک دے دیتا ہے۔ یہاں رکنے کا مزہ یہ ہے کہ سفر کی تھکن اتر جاتی ہے۔

بالاکوٹ خود بھی ایک تاریخی اور سیاحتی مقام ہے۔ دریائے کنہار کے کنارے آباد یہ شہر ناران اور کاغان جانے والوں کے لیے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے اصل پہاڑی سفر شروع ہوتا ہے۔ پہاڑ، دریا اور روایتی کھانے — لیکن کھانوں کے بارے میں زیادہ امیدیں نہ رکھیں۔ یہاں کا ذائقہ عموماً سادہ ہی ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اپنی امیدیں پہلے سے کم رکھیں تاکہ مایوسی نہ ہو۔

صبح آٹھ بجے ناران پہنچے تو آنکھیں آدھی بند تھیں مگر دل مکمل جاگ چکا تھا کیونکہ مناظر ایسے تھے کہ تھکن کا تصور ہی مٹ گیا۔ بالاکوٹ سے ناران کا سفر اپنی ہی ایک دنیا ہے۔ راستے میں دریائے کنہار ساتھ ساتھ چلتا ہے، کبھی بپھرتا ہوا، کبھی پرسکون۔ سڑک کے دونوں طرف پہاڑ ایسے کھڑے ہوتے ہیں جیسے سفر کرنے والوں پر نگاہ رکھے ہوئے ہوں۔

راستے میں چھوٹے چھوٹے گاؤں نظر آتے ہیں، جہاں مقامی چائے کے ڈھابے اور لکڑی کے پرانے پل ہیں۔ آگے بڑھتے ہوئے کیوائی آتا ہے، جو اپنی آبشار اور سادہ سے ہوٹلوں کے لیے مشہور ہے۔ یہاں سے ایک راستہ اوپر پہاڑوں کی طرف مڑتا ہے جو شوگران جاتا ہے — یہ ایک خوبصورت پہاڑی مقام ہے، جہاں سے سری پائے اور مکڑا پیک تک ہائیکنگ ٹریک نکلتے ہیں۔ شوگران اپنی گھاس کی ڈھلوانوں اور ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے سیاحوں کا پسندیدہ پوائنٹ ہے۔

کیوائی سے آگے چلیں تو مہاندری کا علاقہ کھلے میدانوں اور گاؤں کی زندگی کے رنگ دکھاتا ہے۔ کچھ فاصلے پر ایک کچا راستہ الگ سمت میں جاتا ہے جو شران فاریسٹ تک پہنچاتا ہے۔ یہ کوئی عام راستہ نہیں، بلکہ مین روڈ سے تقریباً دو گھنٹے کا آف روڈ جیپ ٹریک ہے۔ ٹریک لمبا ضرور ہے مگر جب جنگل کی گھنی چھاؤں، آبشاروں کی آواز اور ٹھنڈی ہوا آپ کا استقبال کرتی ہے تو ساری تھکن اتر جاتی ہے۔ ہم نے یہاں ایک بار ڈے کیمپنگ کی تھی۔ دن بھر درختوں کے سائے میں بیٹھنا، قہقہے لگانا اور چائے پینا — ایسا لگا جیسے چند گھنٹے نہیں بلکہ ایک پوری چھٹی گزار لی ہو۔

اس کے بعد کاغان بازار آتا ہے، جو ایک بڑا قصبہ ہے اور اکثر لوگ یہاں ناشتہ یا چائے کے لیے رکتے ہیں۔

سفر جیسے جیسے ناران کی طرف بڑھتا ہے، ویسے ویسے ہوا ٹھنڈی اور مناظر مزید دلکش ہوتے جاتے ہیں۔ یہ سب صبح کے وقت اور بھی حسین لگتے ہیں۔ واقعی، صبح سویرے سفر کرنے کا مزہ ہی الگ ہے، کم ٹریفک اور زیادہ سکون کے ساتھ۔

ناران پہنچتے ہی ریحان نے پہلے سے بک کیا ہوا ہوٹل ہمارے حوالے کیا، سامان کمرے میں رکھا اور سیدھے ناران بازار کے مشہور مون ریسٹورنٹ پہنچ گئے۔ وہاں کا ناشتہ ایسا تھا کہ “آلو بھجیا” بھی بادشاہی کھانے جیسا لگ رہا تھا۔ آملیٹ، چنے، پراٹھے، نان، لسّی اور چائے — ایسا کمبی نیشن کہ کھا کر دل کیا یہی روز ملے۔ پھر کیا تھا، سب کے سب ناشتے کے بعد سیدھے نیند کی دنیا میں ڈھیر۔

جمعہ کی نماز کے بعد باربی کیو کا پروگرام شروع ہوا ۔ صفدر ماموں اور ریحان نے بازار سے کچھ سامان لیا اور ریحان ہمیں اپنے خفیہ باربی کیو پوائنٹ پر لے گیا، جو جھیل سیف الملوک روڈ کے شروع میں ہی ایک الگ تھلگ مقام تھا۔ ایسی جگہ جس کا زیادہ تر لوگوں کو پتا ہی نہیں۔ وہاں سکون ہی سکون تھا۔ ہم نے باربی کیو لیا، مرغی سیخوں پر چڑھائی، قہقہے لگائے، یادیں تازہ کیں اور ساتھ ہی سلمان خان (صوفی) کے قطر سے لائے ہوئے خاص سگار بھی سلگائے۔ دریا کا شور، باربی کیو کی خوشبو اور چائے کی بھاپ — ہر لمحہ کمال کا تھا… بس کمال (ہمارا دوست) ساتھ نہیں تھا۔

مغرب کے بعد ہم واپس ہوٹل پہنچے۔ اگلے دن کے لیے کیمپنگ کی پلاننگ ہوئی، سب اپنی اپنی رائے دیتے اور دوسروں پر ہنسی مذاق کے تیر برساتے رہے۔ اور یہ تو صرف پہلا دن تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these