پہاڑ، ناشتے کی ضد اور سلاجیت کا سین — ناران ڈائری قسط 3

چھ اکتوبر 2024، اتوار کی صبح۔ ہم سب نے بیگ پیک کیے، گاڑی میں سامان رکھا اور خوشی یہ کہ فیضان کی طبیعت کافی بہتر ہو گئی تھی۔ سوچا تھا ناران میں ناشتہ کریں گے مگر روڈ ٹرِپس میں پلان کب پورے ہوتے ہیں؟ فیصلہ ہوا کہ کاغان کی طرف واپس چلتے ہیں۔

راستے میں ایک خوبصورت ریزورٹ نظر آیا — اسپروس ریزورٹ (پہلے آرکیڈین کے نام سے جانا جاتا تھا)۔ سبز لان، دریا کے کنارے کرسیاں، اور ماحول ایسا کہ دل کرے بس بیٹھے رہیں۔ لیکن ڈرامہ تب ہوا جب مینو پر نظر پڑی۔ انگلش ناشتہ دیکھ کر سلمان کا منہ دیکھنے والا تھا۔ “بھائی چنے اور آلو بھجیا کہاں ہیں؟” اس کی یہ بات سن کر ہم سب ہنستے ہوئے کھڑے ہو گئے کہ یہاں ناشتے کی دال نہیں گلنے والی۔ آخر میں ہوا یہ کہ فیضان نے انگلش بریک فاسٹ وہیں بیٹھ کر کھا لیا اور ہم باقی لوگ پاس کے جنگل کی چھوٹی سی ٹریک پر نکل گئے۔

ٹریک بڑا ہی مزے کا تھا۔ اونچے چیڑ کے درخت، زمین پر بکھرے کونز، اور وہ خاموشی جو دل کو سکون دے۔ میں نے راستے سے چند کونز بھی اٹھا لیے کہ بیگم کو دے سکوں، جو پینٹنگ اور ڈیکوریشن کی شوقین ہے۔ انسٹاگرام کی تصویریں بھی بنیں۔ جب واپس لوٹے تو فیضان دانت نکالتا ہوا بولا، “بیسٹ بریک فاسٹ ایور!” اور سلمان مزید جل گیا۔

کاغان واپس آتے ہوئے ایک سڑک کنارے اسٹال نظر آیا جہاں اخروٹ، شہد، دیسی گھی اور مشہور سلاجیت بیچ رہے تھے۔ دکاندار پوری گرمجوشی سے سمجھا رہا تھا جیسے کوئی ڈاکٹر ہو۔ ہم سب نے اپنے اپنے گھروں کے لیے شہد بھی لیا، جو خلافِ توقع واقعی بہت ہی خالص نکلا۔ تبھی سلمان نے سنجیدہ چہرے کے ساتھ سوال کیا: “کیا بچے سلاجیت کھا سکتے ہیں؟” لمحے بھر کو دکاندار خاموش ہوا اور پھر ہم سب ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ یہ جملہ پورے دن کا مذاق بن گیا اور بیچارے سلمان کو بار بار سننا پڑا۔

بل کھاتے پہاڑی راستوں پر اترتے ہوئے ریحان کی طبیعت خراب ہو گئی، شاید موشن سکنس تھی۔ اسے لیموں پانی دیا تو شکر ہے کچھ ہی دیر میں بہتر ہو گیا۔ بالاکوٹ پہنچ کر سب کو بھوک لگی۔ ایک نئے ریسٹورنٹ میں جا کے دال اور روٹی منگوائی — سادہ مگر بے حد سکون بخش۔ سلمان شیخ نے حسبِ روایت دال چھوڑ کر اپنے لیے بریانی آرڈر کی، تو بھلا ہم کہاں پیچھے رہنے والے تھے — ہم نے بھی بریانی کھانے میں پورا حصہ ڈال دیا۔

اس کے بعد ہم ایبٹ آباد میں ریحان کے گھر پہنچے۔ وہاں اس کی بیگم نے ہمارے لیے زبردست ہائی ٹی تیار کی۔ میں اور صفدر ماموں نے “بُلٹ کافی” پی جس نے تھکن اتار دی۔ کچھ دیر محفل رہی، ہنسی مذاق اور شکریہ ادا کر کے ہم نے ریحان کو خدا حافظ کہا۔

اب واپسی کا وقت تھا۔ راستے میں پہلے سلمان خان کو گھر چھوڑا، پھر صفدر ماموں کے ہاں رکے جہاں فیضان اور میری گاڑی کھڑی تھی۔ بیگ اٹھایا، گاڑی بدلی اور ساتھ ہی سلمان شیخ کو واہ کینٹ ڈراپ کیا۔ سب کو خدا حافظ کہا اور گھر کی طرف نکل پڑا۔

تین دن کا یہ سفر ختم ہو رہا تھا مگر دل ہنسی، یادوں اور دوستی کے رنگوں سے بھرا ہوا تھا۔ پہاڑ پیچھے رہ گئے، لیکن ان کی خوشبو، دوستوں کی آوازیں اور لمحے ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these