دوستوں کے ساتھ ٹرپ پر جائیں اور سب کچھ پلان کے مطابق ہو جائے… یہ ممکن ہی نہیں۔ 31 اگست 2025 کو ہونے والی ہماری کیمپنگ ٹرپ نے یہ بات خوب واضح کر دی۔ ہم سمجھے تھے کہ خانپور جھیل کے کنارے ایک پرسکون رات گزاریں گے—کیمپ لگائیں گے، کافی پیئیں گے، موسیقی سنیں گے اور شاید مچھلی بھی پکڑ لیں۔ لیکن ہوا کچھ ایسا کہ پوری رات قہقہوں، بارش، ناکام فشنگ اور ایک ناکام پیرا سیل کے ساتھ یادگار بن گئی۔
اصل ٹیم بس تین دوستوں پر مشتمل تھی—میں، ریحان اور فیضان۔ سلمان شیخ کو بھی خاص دعوت دی تھی، مگر حسبِ روایت وہ مصروف ہی نکلا یا شاید گھر سے اجازت نہیں ملی۔ (اس پر اب بھی شک باقی ہے)۔ کمال اس وقت سعودی عرب میں تھا اور سلمان خان المعروف صوفی قطر میں، تو گروپ کچھ ادھورا سا لگ رہا تھا، مگر ہم نے کہا چلو جو ہے اسی میں موج کر لیتے ہیں۔ شام ساڑھے سات بجے ریحان اور فیضان ریزورٹ پہنچے۔ ریحان نے اپنا لایا ہوا کیمپ نکالا، ساتھ اسنیکس، کافی اور سگار بھی میز پر آگئے۔ ریحان نے فشنگ راڈ ایسے تیار کی تھی جیسے آج پورا ڈیم خالی کر دے گا۔
اب کیمپنگ ہو اور موسیقی نہ ہو؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم نے پرانے انگلش گانے لگائے—راسپیوٹن اور چیری چیری لیڈی۔ ان گانوں نے نہ صرف ماحول بنا دیا بلکہ ہمیں سلمان شیخ کی پاسو کار کی یاد بھی دلا دی۔ باتوں باتوں میں فشنگ بھی کی، لیکن قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ مچھلیوں نے جیسے طے کر رکھا تھا کہ آج ہمیں تنگ کرنا ہے۔ ایک بھی مچھلی ریحان کی فشنگ راڈ میں نہ پھنس سکی۔ آخرکار ہم ریزورٹ کے لائیو وائلن سیشن کی طرف نکلے، جہاں افتخار صاحب اپنی دھنوں سے سب کو محظوظ کر رہے تھے۔ ہم نے غزلوں کی فرمائش کر ڈالی اور مزہ دوبالا ہو گیا۔ ڈنر کے بعد موسم اور جھیل کے پرسکون منظر نے رات کو ایک مکمل فلمی رنگ دے دیا۔
لیکن جیسے ہی لگا کہ اب سکون کی رات ہے، بارش نے انٹری مار دی۔ کیمپ میں سونے کا پلان گیا پانی میں، اور ہم ہٹس میں شفٹ ہو گئے۔ برا سودا نہیں تھا—گرم، آرام دہ اور پھر بھی جھیل کے قریب۔ فجر کے وقت ہم نے ڈرون سے سورج نکلنے کا منظر ریکارڈ کیا، اور خانپور جھیل کا وہ نظارہ ایسا تھا جیسے روشنی نے آہستہ آہستہ پانی پر جادو بکھیر دیا ہو۔
صبح کا آغاز مزید مہم جوئی کے ساتھ ہوا۔ اسنیکس اور کافی ساتھ لی اور اسپیڈ بوٹ پر جھیل کا ٹور کیا۔ پانی نیلا، اردگرد سبز پہاڑ، اور فضا میں سکون۔ ہمیں لگا جیسے ہم مالدیپ کے کسی کونے میں ہیں۔ پھر آیا اصل لمحہ ۔ ریحان نے پہلے جا کر مزے سے پیرا سیلنگ پرواز کی، ہنس ہنس کر واپس آیا۔ پھر فیضان کی باری آئی اور وہ لمحہ آیا جس نے پوری ٹرپ کی کہانی بدل دی۔ بوٹ نے ذرا سا دھوکہ دیا اور پیرا سیل نے اڑنے سے صاف انکار کر دیا۔ اونچا جانے کے بجائے فیضان سیدھا جھیل میں جا گرا۔
ہم سب کے لیے یہ سنجیدہ لمحہ ہونا چاہیے تھا… لیکن ہم ہنس ہنس کے دوہرے ہو گئے۔ قہقہے اتنے زور کے تھے کہ شاید جھیل کے اس پار بھی سنائی دے رہے ہوں۔ اب یہ واقعہ پورے ٹرپ کا سب سے بڑا لطیفہ بن گیا۔ اوپر سے اصل نقصان یہ تھا کہ میرا انسٹا 360 کیمرا فیضان کے بازو پر بندھا ہوا تھا، اور وہ بھی جھیل کی تہہ میں چلا گیا۔ بس دل ہی ڈوب گیا تھا، لیکن خوش قسمتی سے بعد میں ڈائیورز نے نکال دیا، ورنہ ہماری ساری محنت پانی میں جا چکی ہوتی۔
آخر میں ناشتہ کیا۔ ریحان اور فیضان سیدھے آفسز کو نکل گئے کیونکہ پیر کی صبح تھی، اور میں ریزورٹ پر ہی اپنے معمول کے کام میں لگ گیا۔
نہ مچھلی پکڑی، نہ بارش نے کیمپنگ کرنے دی، اوپر سے کیمرے کا ڈرامہ اور فیضان کی پیرا سیل کی ناکام پرواز الگ۔ لیکن سچ یہ ہے کہ یہی چیزیں ٹرپ کو یادگار بنا دیتی ہیں۔ ہم نے ساری تصویریں اور ویڈیوز “فرینڈز فارایور” واٹس ایپ گروپ میں شیئر کیں۔ جو دوست ہمارے ساتھ نہیں آ سکے—کمال، سلمان شیخ اور صوفی—انہوں نے بھی تصویریں دیکھ کر خوب مذاق کیا۔
!اور آج بھی جب کبھی محفل جمتی ہے تو ہنسی رکنے کا نام نہیں لیتی۔ خاص طور پر جب کوئی مذاق میں کہہ دیتا ہے: “فیضی بھائی، آپ تو ڈیم میں ڈوب گئے تھے
……ٹرپ کی کچھ یادگار تصویریں











































