پانچ جولائی ۲۰۲۵ کی صبح تھی, دفتر میں بیٹھا چائے پی رہا تھا اور کاغذوں میں دفن دماغ پلان بناتا جا رہا تھا کہ اچانک فون بجا۔ ریحان تھا۔
ریحان کی آواز میں وہی پرانی گھٹن، “یار بور ہو رہا ہوں، نکلتے ہیں کہیں؟” ایک لمحے کو لگا جیسے اگر ابھی نہ نکلا تو یہ دن ویسے ہی فائلوں اور کاغذوں میں مر جائے گا۔ بس فوراً فیصلہ ہوا۔
پلان؟ کوئی نہیں۔
تیاری؟ پوری۔
ہائیکنگ اسٹکس، سگار، انسٹنٹ کافی، چائے کے پیکٹ، مگ اور گرم پانی۔ ریحان نے تو ولاگنگ کیمرا بھی اٹھا لیا، جیسے کوئی نیا انفلونسر لانچ ہونے والا ہو۔ میں نے اپنے اسٹاف سے بائیک اُدھار لی اور ہم دونوں نکل پڑے۔ جیسے ہی سفر شروع ہوا تو دل ہلکا اور دماغ آزاد ہو گیا۔
راستہ بھمالہ کی طرف تھا۔ بھمالہ خانپور کے قریب واقع ایک قدیم بدھ مت آثارِ قدیمہ کا مقام ہے جو یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹس میں شامل ہے۔ یہاں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا بدھا اسٹوپا موجود ہے جو تقریباً دو ہزار سال پرانا ہے۔ خانپور مین روڈ سے اولڈ خانپور روڈ پر یہ مقام واقع ہے اور اس کا راستہ کچا اور آف روڈ ہے۔ دریائے ہرو کے کنارے پہاڑوں کے دامن میں یہ جگہ اپنی خاموشی، سبز پانی اور تاریخی کھنڈرات کی وجہ سے سیاحوں کو ایک منفرد سکون بخشتی ہے۔
بھمالہ پہنچ کر ریحان نے کہا، “یار بھمالہ تو کئی بار دیکھ لیا ہے، چل کچھ اور آگے چلتے ہیں۔” اور بس، سفر آگے بڑھ گیا۔ سڑک تنگ، آبادی غائب، صرف ہوا کا شور اور پہاڑوں کی خاموشی۔ سامنے سبز پانی چمک رہا تھا، جیسے ہمیں روکنے کے لیے پکار رہا ہو۔ ہم دونوں رک گئے۔ وہ لمحہ ایسا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔
واپسی پر دریائے ہرو کے کنارے چائے بنائی۔ ہرو ایک پہاڑی دریا ہے جو ایبٹ آباد اور ہری پور کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور آخرکار خانپور ڈیم میں جا گرتا ہے۔ کافی پہلے ہی پی رکھی تھی، مگر چائے کے بغیر دل مطمئن نہیں ہوتا۔ چائے کے گھونٹ کے ساتھ اچانک ریحان نے کہا، “یار مجھے پانی میں نہانا ہے۔”میں نے صرف اتنا کہا کہ اپنی چائے ساتھ لیتا جا، باقی تیرا مسئلہ ہے”۔ اور جناب واقعی اپنی چائے پکڑ کے سیدھا پانی میں جا بیٹھے، جیسے یہ بالکل عام سی بات ہو۔ پانی میں تیراک کم اور فلسفی زیادہ لگ رہا تھا۔
دو گھنٹے ایسے گزرے جیسے دماغ پر لگا بوجھ اتر گیا ہو۔ رفتار، خاموشی، چائے، کافی، ٹھنڈا پانی، اور وہ لمبی لمبی باتیں جن پر خود ہنس بھی پڑتے تھے۔ واپسی کے وقت دل ہلکا تھا، دماغ پرسکون، مگر ایک کمی تھی۔ باقی دوست یاد آ رہے تھے۔
سوچا، فیضان ساتھ ہوتا تو ہر منظر کے ساتھ دس سیلفیاں نکالتا۔ سلمان شیخ گھر سے چاولوں کا پتیلا لے آتا۔ سلمان خان (صوفی) جگت مارتا، جس پر پہلے ہنسی آتی اور بعد میں مطلب سمجھ آتا۔ اور کمال اپنی اونچی، بے قابو ہنسی سے پہاڑوں کے لوگ اکٹھے کر لیتا۔
سکون بھی تھا، کافی بھی، چائے بھی، لیکن وہ شور نہیں تھا جو صرف دوستوں کے ساتھ آتا ہے۔









