ناران ڈائری 2: برفباری، بریانی، بکرے کی ران، کیمپنگ اور بیمار دوست

پانچ اکتوبر 2024، ہفتہ کی صبح۔ ناران کے ٹھنڈے موسم اور پہاڑی ہوا میں آنکھ کھلی تو دل میں نئے دن کے لیے جوش تھا، رات کی نیند سے جسم تازہ دم ہو چکا تھا۔ ناشتے کے لیے بٹا کُنڈی جانا طے تھا۔ یہ ناران سے صرف سولہ کلومیٹر آگے ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ اصل وجہ یہ تھی کہ ریحان کا دوست وہاں ریسٹورنٹ چلاتا ہے، اور جہاں مقامی دوست ہوں وہاں ہمیشہ کچھ خاص ملتا ہے۔

ناران سے بٹا کُنڈی کی طرف نکلے تو راستے کے ساتھ ساتھ دریائے کنہار اپنی پوری شان کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ کہیں پانی پرسکون تھا اور کہیں تیز شور۔ ایک جگہ آئی جہاں رافٹنگ ہوتی ہے۔

ریسٹورنٹ پہنچے تو منظر ایسا تھا جیسے پہاڑوں کی کسی فلم کا سین ہو۔ اندر داخل ہوئے تو میز پر ناشتہ ہمارا انتظار کر رہا تھا: گرم گرم چنے، آملیٹ، کرسپی پراٹھے اور کڑک چائے۔ ساتھ ساتھ ریسٹورنٹ کا مالک ہمیں پہاڑوں کے چھپے ہوئے ٹریکس کی کہانیاں سنانے لگا۔ گلگت اور نلتر ویلی کی ایسی تصویریں کھینچیں لفظوں سے کہ ہم سب کے دل میں فوراً سفر کی خواہش جاگ اٹھی اور اسی جوش میں ہم نے نلتر جانے کا سنجیدہ پلان بنانا بھی شروع کر دیا۔لیکن حقیقت یہ تھی کہ فیضان کی طبیعت خراب تھی اور سلمان شیخ کو پیر تک ڈیوٹی پر واپس ہونا تھا۔ یوں وہ شاندار پلان کاغذ پر ہی رہ گیا، اور ہم نے فیصلہ کیا کہ فی الحال فیضان کا خیال رکھنا زیادہ ضروری ہے۔

اس کے بعد ہم جلکھڈ کی طرف نکلے، جہاں ہمارا ارادہ ڈے کیمپنگ کرنے کا تھا۔ جلکھڈ ایسا لگتا ہے جیسے کسی خوبصورت وال پیپر کو حقیقت میں دیکھ رہے ہوں — برف پوش پہاڑ، سبز وادیاں اور بیچ میں بہتا دریا۔ لیکن ریحان کی ضد تھی کہ پہلے لولوسر جھیل دیکھتے ہیں۔ اور واقعی، لولوسر جھیل کسی فینٹسی ناول سے کم نہ تھی۔ نیلا پانی اور چاروں طرف بلند پہاڑ۔ ساتھ ہی یخ بستہ ہوا جس نے یاد دلایا کہ یہاں آگ جلائے بغیر گزارہ نہیں۔ چند تصویریں لیں اور پھر بئسر واپس آ گئے تاکہ باربی کیو کے لیے میرینیٹ کیا ہوا گوشت تیار کریں۔

بئسر میں ہمیں ایک سرپرائز ملا — سال کی پہلی برف باری! برف کے گالے آسمان سے گرتے ہی علاقہ جادوئی منظر میں بدل گیا۔ اور ہم نے کیا کیا؟ بس وہی جو ہر پاکستانی کرتا ہے — فوراً ریسٹورنٹ سے بریانی منگوائی۔ بریانی ذائقے میں تو بس گزارے لائق تھی، مگر برف کے بیچ کھانے نے اسے بھی شاہی کھانے جیسا بنا دیا۔

پھر شام کو ہم واپس جلکھڈ پہنچے اور کیمپ لگایا۔ آگ جلائی، چائے بنائی اور ہنسی مذاق شروع۔ فیضان چونکہ بیمار تھا اس لیے گاڑی میں کمبل لپیٹ کر بیٹھا رہا۔ باقی سب آگ کے گرد بیٹھے قہقہے لگاتے رہے۔ کچھ مقامی لڑکے بھی آ گئے، انہوں نے اپنی کہانیاں سنائیں اور ہم نے اپنی۔

واپسی پر ایک اور حیرت ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ برُوائی کے مقام پر ہمیں ایک نیا ریزورٹ نظر آیا — دی ایڈونچرز ریزورٹ۔ بالکل یونیک، ایڈونچر تھیم پر بنایا گیا۔ ایسا لگا جیسے کسی ٹریول میگزین کے صفحے پر آ گئے ہوں۔ دل میں طے کر لیا کہ اگلی بار یہاں لازمی رکنا ہے۔

رات گئے ناران واپس پہنچے تو بارش شروع ہو گئی۔ اور بارش ہو اور باربی کیو نہ ہو؟ یہ تو زیادتی ہے۔ سو ہم نے ہوٹل کی چھت پر باربی کیو سیٹ کر لیا۔ بارش برس رہی تھی اور ہم بکرے کی ٹانگ روسٹ کر رہے تھے۔ ہوٹل کا مالک بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گیا۔ قہوے کی چسکیوں اور باربی کیو کی خوشبو کے بیچ باتیں سیاست سے لے کر سفر اور دوستوں کی شرارتوں تک چلتی رہیں۔ فیضان پر مزاح بھی ہوا۔

رات بھرپور قہقہوں اور بھرے پیٹ کے ساتھ ختم ہوئی۔ بارش، باربی کیو اور دوستوں کی محفل نے دن کو وہ یادگار بنا دیا۔ آگے کہانی اور بھی دلچسپ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these