مکہ مکرمہ میں تین دن: عبادت، سکون اور یادگار لمحات

چھ مارچ دو ہزار چوبیس کی صبح، فجر سے دو گھنٹے پہلے ہم “السيل الکبير” کے میقات سے نکلے۔ یہاں احرام باندھا اور نیت کر کے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ میقات سے مکہ کا فاصلہ تقریباً ایک گھنٹے کا ہے، مگر دل کی کیفیت ایسی تھی جیسے صدیوں کا سفر طے کر کے جا رہے ہوں۔ —“لبیک اللهم لبیک”—اور ہر لفظ دل کو جھنجھوڑ رہا تھا۔

مکہ پہنچ کر ہم سیدھے “الکسوہ ٹاورز” ہوٹل گئے، جہاں کی بکنگ ہم نے قطر سے ہی آن لائن کر لی تھی۔ دو راتوں اور تین دن کے قیام کا یہ منصوبہ پہلے سے طے تھا۔ گاڑی ہوٹل کی پارکنگ میں کھڑی کی، سامان کمرے میں رکھا اور دل بےچین تھا کہ جلد از جلد خانہ کعبہ کی طرف نکلیں۔ فجر سے پہلے ہی مسجد الحرام پہنچے اور پہلی نظر بیت اللہ پر پڑی تو دل کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ گئے۔ ایسا لگا جیسے پوری کائنات ایک نقطے پر سمٹ گئی ہو۔

عمرہ کی ادائیگی اپنے اندر ایک الگ روحانی کیفیت رکھتی ہے۔ طواف کے سات چکر، مقامِ ابراہیم کے قریب دو رکعت نفل، زم زم کا ٹھنڈا میٹھا پانی اور صفا و مروہ کی سعی—یہ سب اعمال محض رسومات نہیں بلکہ ایمان کو تازہ کرنے والے لمحات ہیں۔ بال کٹوا کر احرام کھولتے ہی یوں لگا جیسے گناہوں کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہو۔

عمرہ کے بعد ہم ہوٹل واپس آئے تو اوپر والے فلور پر ناشتہ بوفے لگا ہوا تھا۔ صرف پینتیس ریال فی کس کے حساب سے تقریباً پچاس ڈشز موجود تھیں۔ مختلف عربی کھانے، فریش بیکری آئٹمز، سلادز اور میٹھے—یوں لگا جیسے نعمتوں کی میز سجی ہو۔ ہم سب نے دل بھر کر ناشتہ کیا اور آج بھی وہ ذائقے یاد ہیں۔

مکہ مکرمہ کی یہ خاص بات ہے کہ یہ صرف ایک شہر نہیں بلکہ صدیوں کی تاریخ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ یہی وہ وادی ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کو اللہ کے حکم پر چھوڑا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں زم زم کا چشمہ پھوٹا اور جہاں خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی۔ زم زم کا پانی آج بھی ایک زندہ معجزہ ہے، جسے لاکھوں لوگ روز پیتے ہیں مگر یہ چشمہ کبھی خشک نہیں ہوتا۔

مسجد الحرام دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے اور اس کی توسیع کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ حالیہ برسوں میں سعودی حکومت نے جدید سہولتیں شامل کی ہیں—شٹل سروس، ایئر کنڈیشنڈ ہالز، اور کئی منزلہ عمارتیں تاکہ حاجی آسانی سے عبادت کر سکیں۔

ہمارے قیام کے دوران ہم نے جتنا وقت بھی مسجد الحرام میں گزارا، وہ ایمان کو تازہ کرتا رہا۔ کبھی طواف کے رش میں، کبھی نمازیوں کے ہجوم کو دیکھتے ہوئے، اور کبھی صرف کعبہ کو دیکھتے ہوئے دل کو سکون ملتا۔

پہلے دن کے عمرے اور طویل سفر کی تھکن کے بعد ہم نے سوچا کہ کیوں نہ تھوڑا مکہ شہر میں بھی گھوم پھر لیا جائے۔ سعودی عرب کی ایک خاص پہچان ال بیک فاسٹ فوڈ چین ہے۔ حرم کے قریب موجود اس کی برانچ ہمیشہ رش سے بھری رہتی ہے۔ ہم نے بھی ایک شام یہاں کا رخ کیا اور ان کا مشہور فرائیڈ چکن اور گارلک ساس ٹرائی کیا۔ ذائقہ واقعی لاجواب تھا اور وہی تھا جس کی تعریفیں ہم برسوں سے سنتے آئے تھے۔

مکہ مکرمہ میں حرم سے کچھ فاصلے پر جبلِ نور ہے، جس کی چوٹی پر غارِ حرا موجود ہے۔ وہی جگہ جہاں پہلی وحی نازل ہوئی۔ پھر جبلِ ثور اپنی تاریخی اہمیت رکھتا ہے، جہاں ہجرتِ مدینہ کے وقت پناہ لی گئی تھی۔ حج کے دوران لاکھوں حاجیوں کا مرکز بننے والا عرفات کا میدان بھی قریب ہی ہے۔ اسی طرح مسجدِ عائشہ جہاں سے لوگ نفل یا اضافی عمرہ کے لیے احرام باندھتے ہیں، اور مزدلفہ و منیٰ جیسے مقامات بھی ایمان کو تازہ کر دینے والی یادگاریں ہیں۔ ان جگہوں پر کھڑے ہو کر ایسا لگتا تھا جیسے ہم صرف زمین پر نہیں بلکہ تاریخ کے صفحات پر چل رہے ہیں۔

یوں ہمارے تین دن مکہ میں عبادت اور سکون کے ساتھ گزرے۔ اگلے مرحلے میں ہمارا سفر مدینہ منورہ کی طرف تھا، جہاں ہمارا دوست کمال پہلے سے ہمارا منتظر تھا۔ اُس نے پینتالیس دن کے لیے ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لیا ہوا تھا اور ہمارا وہاں قیام طے تھا۔ لیکن یہ کہانی اگلے حصے میں—جہاں مکہ سے مدینہ تک کا سفر اور مدینہ کی روحانی فضا کا ذکر ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these