… مدینہ سے بدر تک کا راستہ: صدیوں پرانی تاریخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا احساس کیسا تھا

نو مارچ ۲۰۲۴ کو ہمارا پروگرام غزوہ بدر کی سرزمین دیکھنے کا تھا۔ کمال اور اُس کی فیملی نے اپنا الگ پروگرام بنا رکھا تھا۔ اس لیے میں، سلمان اور صفدر ماموں اکیلے ہی اس راستے پر نکلے۔ مدینہ سے بدر کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر ہے، اور یہ سفر گاڑی پر لگ بھگ دو گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔

راستے میں ایک تاریخی مقام آیا—وہ کنواں جس کے بارے میں مشہور ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنا لعاب دہن اس میں ڈالا تھا اور وہ کھارا کنواں میٹھا ہو گیا۔ ہم نے وہاں کچھ دیر قیام کیا، پانی پیا، اور اپنے ساتھ بھی بھر کر لے لیا۔ وہ لمحہ ایسا تھا کہ دل کی گہرائیوں تک ایک روحانی سکون اُتر گیا۔

پھر ہم بدر کی طرف بڑھے۔ وہاں پہنچ کر ہم نے سب سے پہلے مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں غزوہ بدر کے دوران نبی اکرم ﷺ نے اپنا خیمہ لگایا تھا۔ اس حقیقت کو جان کر مسجد میں بیٹھنا اور نماز پڑھنا ایک عجیب سی کیفیت دے رہا تھا، جیسے لمحہ بھر کے لیے ہم بھی اس عظیم تاریخ کا حصہ بن گئے ہوں۔

غزوہ بدر کا پس منظر دل کو جھنجھوڑ دینے والا ہے۔ یہ معرکہ سنہ ۲ ہجری میں پیش آیا، جب صرف ۳۱۳ مسلمان، محدود ہتھیاروں اور وسائل کے ساتھ، ایک ہزار سے زائد مشرکینِ مکہ کا سامنا کر رہے تھے۔ مسلمانوں کے پاس گھوڑے اور اونٹ بھی بہت کم تھے، لیکن ان کے دل ایمان سے بھرے ہوئے تھے۔ اسی جنگ میں اللہ کی طرف سے فرشتوں کی مدد آئی، جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے، اور یہی معرکہ اسلام کی پہلی بڑی فتح ثابت ہوا۔ اس نے نہ صرف مسلمانوں کا حوصلہ بلند کیا بلکہ اسلامی تاریخ کا رخ بھی بدل دیا۔

ہم نے شُہداء بدر کے مزار پر فاتحہ پڑھی اور دعا مانگی۔ وہاں کھڑے ہو کر سوچ رہا تھا کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے خون سے اسلام کی بنیاد کو مضبوط کیا۔ پھر ہم اُس پہاڑی پر بھی گئے جہاں کے بارے میں روایت ہے کہ یہاں فرشتے اترے اور صحابہ کرامؓ کی مدد کی۔ وہاں کھڑے ہو کر ایسا لگ رہا تھا جیسے ہوا کا ہر جھونکا اُس عظیم دن کی گواہی دے رہا ہو۔

شام کو ہم واپس مدینہ پہنچے اور کمال کے اپارٹمنٹ میں تھوڑا آرام کیا۔ پھر مسجد نبوی کی طرف نکلے اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری دی۔ وہ لمحہ بیان سے باہر تھا—روشنیوں میں نہایا ہوا گنبدِ خضریٰ اور لاکھوں زبانوں سے اٹھنے والے درود و سلام کی گونج۔

واپسی پر کمال ہمیں اپنی پسندیدہ جوس شاپ لے گیا، جہاں ٹھنڈے جوس کے ساتھ دن کی تھکن اتر گئی۔ ہم نے مدینہ کی مشہور مارکیٹوں میں گھومنے کا پروگرام بنایا۔ وہاں کی فضائیں، کھجوروں کی دکانیں اور روایتی اشیاء اپنی الگ ہی دلکشی رکھتی تھیں۔ کمال ہمیں ایک ریسٹورنٹ بھی لے گیا جہاں “بکٹ بریانی” ملتی ہے۔ یہ واقعی بالٹی جیسے ڈبوں میں سرو کی جاتی ہے۔

اگلے دن کمال نے ہمیں ایک کھجور فیکٹری کا وزٹ کروایا۔ وہاں ایک بڑا آؤٹ لیٹ بھی تھا جہاں کھجوروں کی بے شمار اقسام سجی ہوئی تھیں—عجوہ، صفاوی، مبروم، سکری اور جانے کتنی مزید۔ کھجوروں کی خوشبو اور ان کی ترتیب دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ صرف پھل نہیں بلکہ مدینہ کی ثقافت اور برکت کا حصہ ہیں۔ ہم نے وہیں سے کچھ تحفے خریدے تاکہ اپنے گھر والوں اور دوستوں کے لیے لے جا سکیں۔

اس کے بعد کمال ہمیں ایک میگا مارٹ بھی لے گیا۔ یہ جگہ عام سیاحوں کے لیے مشہور نہیں تھی بلکہ زیادہ تر مقامی لوگ یہاں خریداری کرتے ہیں۔ وہاں کا ماحول بالکل مختلف تھا، جیسے ہم حقیقی مدینہ کی روزمرہ زندگی میں گھل مل گئے ہوں۔ ہم نے یہاں سے بھی کچھ تحفے خریدے۔ چونکہ رمضان کا چاند نظر آ چکا تھا اور اگلے دن پہلا روزہ تھا، اس لیے پورا مدینہ ایک خاص چہل پہل میں ڈوبا ہوا تھا۔ بازاروں میں گہما گہمی، کھجوروں کی خریداری اور گھروں کے لیے سحری و افطار کی تیاریاں— پہلی تراویح مسجد نبوی میں پڑھنے کا موقع ملا۔

اگلے دن ہمارا روزہ تھا اور وہ سکون، وہ روحانی ماحول، اور وہ اجتماع ایسا تھا جس نے دل پر گہرا نقش چھوڑ دیا۔ اس کے بعد طے پایا کہ سحری کے بعد ریاض کی طرف روانہ ہوں گے، لیکن وہ قصہ اگلی قسط میں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these