آٹھ مارچ 2024 کی صبح ہم نے مکہ سے مدینہ کا سفر شروع کیا۔ سوچا کہ جمعے کی نماز مدینہ منورہ میں پڑھیں گے، اس لیے فجر کے بعد ہی نکلنے کا فیصلہ کیا۔ مکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دل میں ایک عجیب سی کیفیت تھی—شکرگزاری بھی اور آگے کی تڑپ بھی۔ راستہ ہائی وے کا تھا جس پر سفر آسان تو تھا لیکن صحرائی مناظر اپنی خاموشی کے ساتھ ایک الگ ہی احساس دے رہے تھے۔
راستے میں مختلف شہر آتے گئے۔ آگے بڑھتے ہوئے بدر اور رابغ جیسے تاریخی مقامات کے بورڈ دکھائی دیے تو دل نے ان جگہوں کی عظمت کو محسوس کیا۔ سفر کے دوران سب سے دلچسپ لمحہ وہ تھا جب ہم ایک ایسے مقام پر رکے جہاں سڑک کے کنارے درجنوں بندر کھیل رہے تھے۔ جیسے ہی گاڑی روکی تو چند شرارتی بندر بونٹ پر چڑھ گئے۔ ہم نے تصاویر بھی بنائیں اور قہقہوں کے بعد سفر دوبارہ شروع کر دیا۔
ڈرائیونگ باری باری سلمان اور میں کرتے رہے تاکہ تھکن کم ہو۔ ہر تھوڑی دیر بعد کسی سروس ایریا پر رکتے، تازہ دم ہوتے اور عربی گوا (قہوہ) ضرور پیتے، جس سے تھکن جیسے غائب ہو جاتی تھی۔
بالآخر ہم مدینہ پہنچے اور سیدھے اس لوکیشن پر گئے جو ہمارے دوست کمال نے ہمیں بھیجی تھی۔ کمال سے کئی برس بعد ملاقات ہو رہی تھی، اس لیے گلے ملنے کے بعد دیر تک گپ شپ چلتی رہی۔ کمال کے پاس پہنچتے ہی ہم نے اُس کی فورڈ کے ساتھ ایک یادگار تصویر لی، جو خاص طور پر پاکستان میں موجود اپنے دوستوں—فیضان، ریحان اور سلمان شیخ—کے لیے تھی۔ یہ سب اپ ڈیٹس ہم ساتھ ساتھ اپنے ‘فرینڈز فارایور’ گروپ میں بھیجتے رہے تاکہ وہ بھی اس سفر کا حصہ محسوس کریں۔ کمال نے بتایا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ ایک لگژری اپارٹمنٹ میں ٹھہرا ہوا ہے، اور خوش قسمتی سے وہاں ایک کمرہ خالی ہے، اس لیے ہمیں ہوٹل بک کرنے کی ضرورت نہیں۔ یوں ہم تینوں کے لیے بہترین قیام کا بندوبست ہو گیا۔ کمال کے بڑے بھائی جمال بھائی سے بھی ملاقات ہوئی، اور پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔
اسی دوران جمعے کی نماز کا وقت قریب آ گیا۔ ہمارا ارادہ مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کا تھا، لیکن جب پہنچے تو پارکنگ بھر چکی تھی۔ کمال نے مشورہ دیا کہ مسجد قبا چلتے ہیں۔ وہاں بھی بے پناہ رش تھا، لیکن ہم نے سڑک پر صفوں میں شامل ہو کر جمعے کی نماز ادا کی۔ یہ لمحہ بھی اپنی جگہ انمول تھا۔
نماز کے بعد کمال ہمیں اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ “ہاشی باشا” لے گیا، جو اونٹ کے گوشت کی مندی کے لیے مشہور ہے۔ واقعی ذائقہ لاجواب تھا—گوشت نرم اور چاول خوشبودار۔کھانے کے بعد کنّافہ کھانا ضروری تھا، اور چونکہ وہیں تازہ تیار ہو رہا تھا اس لیے مزہ دوبالا ہو گیا۔ تھکن کے باوجود ہم سب حیرت انگیز طور پر فریش تھے۔
شام کو آخرکار وہ وقت آیا جس کا شدت سے انتظار تھا۔ ہم مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور روضہ رسول ﷺ پر سلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ وہ لمحہ بیان سے باہر ہے—آنکھیں نم، دل بے قرار اور زبان پر بس درود و سلام۔ عشاء کی نماز کے بعد ہم مدینہ کی گلیوں میں نکلے۔ مدینہ کی فضاؤں کا سکون، وہاں کی خوشبو، اور وہاں کی خاموشی دل کو چھو لیتی ہے۔
مدینہ کی پرانی گلیوں اور بازاروں کا اپنا الگ ہی رنگ ہے۔ کہیں کھجوروں کی خوشبو ہے، کہیں چھوٹی دکانوں پر بیٹھے لوگ مسافروں کو تسبیحیں اور جائے نماز دکھا رہے ہیں۔ روشنیوں سے جگمگاتے یہ بازار اور ان کی سادہ رونق دل کو ایک خاص سکون دیتی ہے۔ یہاں چلتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ یہ شہر صرف اینٹ اور پتھر کا مجموعہ نہیں بلکہ صدیوں کی عبادتوں اور دعاؤں کی خوشبو سے مہکا ہوا ہے۔
یوں ہمارا مدینہ میں پہلا دن مکمل ہوا۔ اگلے دن کا پلان “غزوہ بدر” کی تاریخی سرزمین دیکھنے کا تھا، جس کا ذکر میں اگلے بلاگ میں کروں گا۔
























