پانچ ہزارکلومیٹر کا سفرنامہ: راستے ختم، کہانی باقی

١١ مارچ ٢٠٢٤ — پہلا روزہ

یَکم رمضان کا پہلا روزہ تھا۔ سحری کے بعد ہی ہمارا مدینہ سے نکلنے کا پروگرام تھا۔ راستے میں عبدل (کمال کا بھائی) سے وعدہ تھا کہ واپسی پر ریاض ضرور رکیں گے۔ چنانچہ ہم روانہ ہوئے۔ مدینہ سے ریاض تک کے ہائی وے پر کبھی چھوٹے قصبے، کبھی کھجوروں کے باغات اور کبھی خالی صحرا راستے کو رنگین بنا رہے تھے۔ لیکن یہ رنگ زیادہ دیر نہ رہے، اچانک راستے میں ریت کا طوفان آ گیا۔ سڑک پر ہر طرف ریت ہی ریت پھیل گئی، یوں لگا جیسے صحرا نے ہائی وے کو اپنی بانہوں میں لے لیا ہو۔ شکر یہ ہوا کہ طوفان اتنا شدید نہیں تھا، اس لیے ہم نے ڈرائیو جاری رکھی۔ کبھی سلمان اسٹیئرنگ سنبھالتا، کبھی میں اور کبھی صفدر ماموں—یوں باری باری گاڑی چلاتے ہوئے ہم آگے بڑھتے گئے۔

ریاض صرف سعودی عرب کا دارالحکومت نہیں بلکہ ایسا شہر ہے جو ہر کونے میں کوئی نیا رنگ دکھاتا ہے۔ کنگڈم سینٹر ٹاور کی بلندی سے پورا شہر جگمگاتا نظر آتا ہے، جیسے ستاروں کی ایک بستی نیچے بچھ گئی ہو۔ مسمک قلعہ اور ال درعیہ کی پرانی گلیاں تاریخ کی زبانی کہانیاں سناتی ہیں، اور ریاض زو یا سفاری پارک بچوں کے لیے جنت جیسے ہیں۔ کھجوروں کی مارکیٹ کی خوشبو اور عربی قہوہ کا ذائقہ وہ ہے جو یہاں آنے والوں کو بار بار یاد رہتا ہے۔ ہائی وے سے گزرتے ہوئے ریاض کو بس راستے کی طرح دیکھا، لیکن دل میں یہ بات ضرور آئی کہ اگلی بار یہاں سے صرف گزرنا نہیں بلکہ کچھ دن رک کر شہر کو قریب سے دیکھنا چاہیے۔

تقریباً افطار سے آدھا گھنٹہ پہلے ہم عبدل کے گھر پہنچے۔ اُس نے بڑے اہتمام سے افطار کا انتظام کیا ہوا تھا۔ کھجوریں، سموسے، جوس، اور گرم گرم پکوڑوں کے ساتھ جب اذان کی آواز گونجی تو ایک سکون سا اُتر آیا۔ کچھ دیر کے آرام اور خوب گپ شپ کے بعد ہم نے آگے کا سفر سوچنا شروع کیا۔

پلان کے مطابق تو ہمیں قطر واپس جانا تھا، مگر بارڈر پولیس کی اطلاع ملی کہ سلوٰی بارڈر سے وزٹ ویزا پر داخلہ ممکن نہیں۔ فیصلہ ہوا کہ اب ہم دمام ایئرپورٹ سے آگے کا سفر کریں گے۔ سلمان نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں، وہ اپنی گاڑی لے کر قطر واپس چلا جائے گا۔ چنانچہ اُس نے ہمیں دمام ایئرپورٹ پر اتارا۔ وہاں ہمارا پروگرام ایک بار پھر بدلا اور طے ہوا کہ براہِ راست پاکستان ہی واپس چلتے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ مسلسل ڈرائیونگ کی تھکن اور راستے میں طوفان کی وجہ سے سب کے گلے بیٹھ گئے تھے، اور لگا کہ یہی مناسب ہے کہ سفر کو یہیں مکمل کر دیا جائے۔

دمام سے قطر کی ایک گھنٹے کی پرواز لی، اور پھر قطر ایئرپورٹ پر چار گھنٹے کا قیام رہا۔ وہاں ہم نے تھوڑی ونڈو شاپنگ کی۔ قطر ایئرپورٹ واقعی اپنے اندر ایک دنیا ہے—ہر طرف روشنی، برانڈز، اور سفر کی کہانیاں سناتے لوگ۔ بالآخر پاکستان جانے کی پرواز کا وقت ہو گیا۔

جب طیارہ اسلام آباد کی فضا میں داخل ہوا تو ایک ہی احساس تھا: “یہ سفر چاہے ختم ہو گیا، لیکن اس کی یادیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔”

یوں یہ پانچ ہزار کلومیٹر کا بائی روڈ سفر اختتام کو پہنچا۔ راستے کے مناظر، شہروں کی گہما گہمی، عبادتوں کی سکون بھری فضا، اور سب سے بڑھ کر دوستوں کی ہنسی مذاق نے اسے ناقابلِ فراموش بنا دیا۔

اور ہاں… اس پوری داستان کا ایک چھپا ہوا ہیرو بھی تھا—سلمان کی پراڈو۔ جس طرح اُس نے ہر صحرائی آندھی، ہر طویل شاہراہ اور ہر مشکل راستے پر ہمارا ساتھ دیا، اس پر بس ایک ہی جملہ بنتا ہے:

“سلام ہے تجھ پر،اے پراڈو! تو نہ ہوتی تو یہ داستان ادھوری رہ جاتی۔” 🚙✨

یہ سفر محض ایک روڈ ٹرپ نہیں تھا بلکہ عبادت، دوستی، مزاح، دریافت اور یادوں کا حسین امتزاج تھا۔ قطر کے ساحلوں سے لے کر مکہ و مدینہ کی روحانیت تک، اور سعودی عرب کے سنہری صحراؤں سے گزر کر پاکستان واپسی تک—ہر لمحہ ایک سبق اور ہر منظر ایک تحفہ لگا۔ ہم نے جانا کہ سفر صرف مقامات دیکھنے کا نام نہیں بلکہ یہ دلوں کو جوڑنے، ایمان کو تازہ کرنے اور زندگی کو نئے زاویے سے سمجھنے کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ پانچ ہزار کلومیٹر کا سفر ختم ضرور ہوا، مگر اس کی یادیں اور احساسات ہمیشہ ہمارے ساتھ زندہ رہیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these