پانچ مارچ 2024 کو پورا دن بنانا آئی لینڈ پر گزارنے کے بعد ہمارا پروگرام تھا کہ رات بارہ بجے سعودی عرب کے لیے نکلیں۔ پیکنگ ہم نے ایک دن پہلے ہی مکمل کر لی تھی، اس لیے سیدھے گھر گئے اور کچھ دیر آرام کیا کیونکہ آگے اٹھارہ گھنٹے کی طویل ڈرائیو ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ سلمان چونکہ اپنے کاروباری معاملات کی وجہ سے اکثر ریاض جاتا رہتا ہے، اس لیے اسے سڑکوں اور بارڈر کراسنگ کی اچھی خاصی واقفیت تھی۔ رات کا وقت اسی لیے چنا کہ بارڈر پر رش کم ہوتا ہے۔
رات کا سناٹا اور قطر کی روشن شاہراہیں، یہ ڈرائیو بذاتِ خود ایک الگ تجربہ تھی۔ کبھی سلمان ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتا، کبھی میں اور کبھی صفدر ماموں—یوں ہم تینوں باری باری گاڑی چلاتے رہے۔ دو گھنٹے بعد ہم “سلوٰی بارڈر” پہنچ گئے۔ خوش قسمتی سے بارڈر کراسنگ بہت اچھی رہی۔ سامان کی مختصر تلاشی کے بعد ہمیں آگے جانے کی اجازت مل گئی۔ یہاں سلمان کی عربی بولنے کی مہارت نے بڑا کام کیا۔ بارڈر پولیس سے اس کی روانی سے گفتگو نے سب معاملات آسان بنا دیے۔ پاکستان سے ہم نے ویزے پہلے ہی لے رکھے تھے جبکہ سلمان کے پاس بزنس کے سلسلے میں ملٹی پل انٹری ویزا موجود تھا۔
سعودی عرب میں داخل ہوتے ہی منظر یکسر بدل گیا۔ دور تک پھیلے سنہری صحرا، کہیں کہیں کھجوروں کے باغ اور سڑک کے کنارے چرنے والے اونٹ—ایسا لگتا تھا جیسے فلمی مناظر آنکھوں کے سامنے آ گئے ہوں۔ ہائی ویز اتنی کشادہ اور ہموار تھیں کہ سفر تھکا دینے کے بجائے مزید پرکشش لگنے لگا۔ ہم ہائی وے نمبر 10 پر سفر کر رہے تھے جو مشرقی سعودی عرب سے سیدھا ریاض لے جاتی ہے۔
راستے میں سب سے پہلا بڑا شہر الاحساء آیا، جو اپنی کھجوروں کے باغات اور دنیا کے سب سے بڑے اویسس کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کے بعد ہفوف کے قریب سے گزرے جو اپنی پرانی مارکیٹوں اور عربی کلچر کی جھلک کے باعث پہچانا جاتا ہے۔ آگے چلتے ہوئے حرض آیا، جو ایک اہم صنعتی علاقہ ہے اور تیل و گیس کے پلانٹس کے لیے جانا جاتا ہے۔ کہیں صحرا کی ویرانی تو کہیں دور دور اونٹوں کے قافلے، اور کبھی کبھی چھوٹے قصبے—یہ سب مناظر سفر کو دلچسپ بناتے رہے۔
فجر کے قریب سورج نکلا تو صحرا کا منظر ناقابلِ بیان تھا۔ جیسے ہی پہلی کرن ریت پر پڑی تو پورا صحرا سنہری چادر اوڑھ کر جگمگا اٹھا۔ آسمان کی سرخی اور ریت کے ٹیلے مل کر ایسا منظر بنا رہے تھے کہ ہم سب چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جو ہمیشہ دل میں نقش رہ جاتا ہے۔
کئی گھنٹوں کی ڈرائیو کے بعد ہم بالآخر ریاض کے قریب پہنچے۔ شہر کی روشنیاں اور بڑھتی ٹریفک صاف بتا رہی تھیں کہ ہم ایک بڑے میٹروپولیٹن میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہاں سے ہم نے اپنے دوست عبدل کو فون کیا اور ناشتہ کرنے کی جگہ پوچھی۔ اُس نے ایک ریسٹورنٹ بتایا جو ذرا دور تھا، مگر بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہم نے راستے میں ہی ایک جگہ رک کر ناشتہ کر لیا۔ ناشتہ کے بعد حسبِ روایت میں اور سلمان نے ایک کپ گوا (عربی کافی) بھی پی، جو ہماری تھکن اتارنے کا سب سے آزمودہ نسخہ بن چکا تھا۔ عبدل سے وعدہ کیا کہ مکہ اور مدینہ سے واپسی پر اُس کے گھر ضرور آئیں گے۔
اس کے بعد ہم سیدھا مکہ کے راستے پر چل پڑے۔ ریاض کے بعد شاہراہ مزید کھلتی گئی۔ المزاحمیہ اور الخرج جیسے علاقے راستے میں آئے، جہاں کبھی کھجوروں کے باغ تو کبھی پرانی طرز کے مکانات نظر آتے۔ ان سنسان مگر سکون بھری سڑکوں نے سفر کو اور بھی یادگار بنا دیا۔
کئی گھنٹوں بعد ہم السيل الکبير پہنچے، جو نجد اور ریاض سے آنے والوں کے لیے میقات ہے۔ یہاں بڑی جامع مسجد ہے جہاں دنیا بھر سے آئے مسافر احرام باندھتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر دل کو ایک عجیب سکون ملا، گویا سب ایک ہی منزل اور مقصد کے مسافر ہیں۔
یہاں کچھ دیر قیام کے بعد ہم نے وضو کیا، نماز پڑھی اور آرام کیا۔ شام کے قریب قریب سورج ڈھلنے لگا تو صحرا اور پہاڑوں کے بیچ وہ منظر ناقابلِ بیان تھا۔ آگے بڑھتے ہوئے ہم ایک افغانی ریستوران میں رکے اور مندی کھائی۔ خوشبو دار چاول، گوشت اور ہلکے مصالحوں نے تھکن کو بالکل ختم کر دیا۔ اس کے بعد سیدھے کمرے میں جا کر باقی رات آرام کیا تاکہ اگلے دن مکہ مکرمہ کا مقدس سفر تازہ دم ہو کر شروع کر سکیں۔















