کبھی کبھی سوچتا ہوں، انسان کے اندر یہ خواہش کیوں ہے کہ وہ یاد رکھا جائے؟
یہی جذبہ شاید فرعون کے اہرام کا سبب بنا — وہ چاہتا تھا کہ مرنے کے بعد بھی دنیا اُس کا نام یاد رکھے۔ ہزاروں سال گزر گئے، لوگ اب بھی اُسے یاد کرتے ہیں، مگر صرف اس کے مقبرے کو دیکھنے جاتے ہیں، نہ کہ اُس کے اعمال کو۔
آج وہی خواہش ہر انسان کے دل میں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب اہرام نہیں بنتے، انسٹاگرام بنتا ہے۔ فرعون نے پتھروں پر اپنا نام کندہ کیا، ہم سکرین پر کرتے ہیں۔ اُس نے امر ہونے کے لیے اہرام بنوائے، ہم لائکس اور فالوورز سے اپنی پہچان بناتے ہیں۔
انسان بھولے جانے سے ڈرتا ہے، مگر شاید یاد رکھے جانے کے شوق میں خود کو بھول جاتا ہے۔
جو فرعون خود کو خدا کہلواتا تھا، شاید اُس نے کبھی سوچا بھی نہ ہو کہ ہزاروں سال بعد لوگ صرف اُس کی لاش دیکھنے آئیں گے — اگر جانتا، تو شاید اتنا غرور نہ کرتا۔
شہرت عارضی ہے، مگر اثر دائمی ہو سکتا ہے۔
فرعون کا صرف نام باقی ہے، مگر موسیٰؑ کے نیک اعمال اور اُن کی کوششیں آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔شاید اصل کامیابی یہی ہے — کہ ہم اپنے نام نہیں، اپنے عمل سے یاد رکھے جائیں۔