ہم خود کو کیوں دھوکہ دیتے ہیں؟

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ انسان دوسروں سے زیادہ خود کو کیوں دھوکہ دیتا ہے؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر ہم سچ جانتے ہیں، مگر پھر بھی اُس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ جیسے دماغ کے اندر ایک وکیل بیٹھا ہو، جو ہر غلط بات کے لیے فوراً کوئی دلیل گھڑ دیتا ہے، تاکہ ضمیر کو چپ کرایا جا سکے۔

جب ہم کوئی ایسا کام کرتے ہیں جو ہمارے نظریات کے خلاف ہو، تو اندر ایک ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ ضمیر سوال کرتا ہے، دل بےچین ہوتا ہے، مگر دماغ فوراً میدان میں آ کر ایک جواز تراش لیتا ہے—”سب ہی ایسا کرتے ہیں”، “یہ حالات کی مجبوری تھی”، یا “میں نے کچھ غلط نہیں کیا”۔ یوں ہم حقیقت سے نہیں، بلکہ اپنے ہی بنائے ہوئے بہانوں سے صلح کر لیتے ہیں۔

یہ انسان کی وہ نفسیاتی چال ہے جو اُسے ٹوٹنے سے بچاتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ اندر سے کھوکھلا بھی کر دیتی ہے۔ کیونکہ ہر بار جب ہم اپنے ضمیر کی آواز دبانے لگتے ہیں، تو وہ مدھم ہوتی جاتی ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ سچائی ہمیں چھو کر بھی گزر جائے، اور ہم محسوس نہ کر پائیں۔

خود کو دھوکہ دینا وقتی اطمینان دیتا ہے، مگر لمبے عرصے میں یہ ہمیں سچائی سے دور لے جاتا ہے۔ اصل بہادری یہ نہیں کہ ہم خود کو درست ثابت کریں، بلکہ یہ ہے کہ اپنی غلطی تسلیم کر سکیں۔ کیونکہ انسان اُس دن آزاد ہوتا ہے، جب وہ خود سے سچ بولنے لگتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these