بنی اسرائیل کے ہفتے کے شکار کی کہانی: کیا آج ہم بھی اسی راستے پر ہیں؟ کہیں ہم بھی اُن خاموش تماشائیوں میں نہ لکھ دیے جائیں

آج بنی اسرائیل کی آزمائش کا ذکر پڑھ کر دل بوجھل ہو گیا۔ یہ قصہ بنی اسرائیل کا ہے، اور قرآن میں بھی ذکر ملتا ہے۔ اللہ نے ان پر ایک حکم اتارا کہ ہفتے کے دن مچھلی کا شکار نہ کریں۔ بس وہ دن اُن کے لیے امتحان بنا دیا گیا۔ کمال یہ تھا کہ ہفتے کے دن مچھلیاں پانی کی سطح پر بڑی تعداد میں آتیں اور باقی دنوں میں کہیں غائب ہو جاتیں۔

سوچیں ذرا! آپ کے سامنے ایک پلیٹ میں مزیدار کھانا رکھا ہے، خوشبو چاروں طرف پھیل رہی ہے اور بھوک بھی لگی ہے۔ لیکن ڈاکٹر نے آپ کو سختی سے منع کیا ہوا ہے کہ یہ چیز آپ کے لیے نقصان دہ ہے۔ اب کھانا سامنے بھی ہے، خواہش بھی ہے، اور حکم بھی واضح ہے کہ نہیں کھانا۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ اپنی خواہش کو توڑتے ہیں یا حکم مان کر صبر کرتے ہیں۔

بالکل یہی حال بنی اسرائیل کے ساتھ تھا۔ ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے آتی تھیں، کثرت سے اور آسانی سے، مگر اللہ کا حکم تھا کہ اس دن شکار نہیں کرنا۔ آزمائش بھی سامنے تھی، رزق بھی سامنے تھا، اور حکم بھی سامنے تھا۔ بس فیصلہ انہی کے ہاتھ میں تھا کہ وہ صبر دکھاتے ہیں یا “چالاکی” کر کے منع کیے گئے کام کو انجام دیتے ہیں۔

انسان ہمیشہ “ہوشیاری” کے بہانے ڈھونڈ لیتا ہے۔ بنی اسرائیل میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جس نے اس حکم کو توڑنے کے لیے چالاکی اختیار کی۔ وہ جمعہ کی شام کو جال بچھا دیتے اور اتوار کو اُٹھا لیتے۔ بظاہر وہ ہفتے کے دن شکار نہیں کرتے تھے مگر حقیقت میں وہ اللہ کے حکم سے کھیل رہے تھے۔ جب انہیں سمجھایا گیا کہ یہ بھی نافرمانی ہے تو وہ کہتے کہ ہم نے ہفتے کو کچھ نہیں کیا، ہم نے تو جمعہ کو جال لگایا اور اتوار کو نکالا۔ لیکن دراصل یہ اللہ کے حکم کو دھوکہ دینا تھا، جو صاف نافرمانی تھی۔

اس آزمائش کے دوران بنی اسرائیل تین حصوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ وہ تھا جو نافرمانی کرتا رہا اور اللہ کے حکم کو توڑتا رہا۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو انہیں روکتا اور برائی سے منع کرتا رہا۔ اور تیسرا گروہ وہ تھا جو خاموش رہا، نہ برائی میں شریک ہوا اور نہ نیکی کے لیے آواز بلند کی۔ وہ صرف تماشائی بنے بیٹھے رہے۔

پھر وہ دن آیا جب اللہ کا فیصلہ نافذ ہوا۔ قرآن کہتا ہے کہ: “جب وہ سرکشی پر اُترے تو ہم نے کہا: ذلیل بندر بن جاؤ۔” (الاعراف 166)۔ یوں وہ لوگ جنہوں نے نافرمانی کی اور وہ بھی جو خاموش رہے، سب اس عذاب میں پھنس گئے۔ صرف وہ بچے جو برائی کو روکنے کی کوشش کرتے رہے۔

یہ قصہ پڑھ کر دل سوچتا ہے کہ خاموشی بھی کتنی بڑی خطا ہے۔ ہم اکثر سمجھتے ہیں کہ اگر برا کام ہم خود نہیں کر رہے تو ہمیں کیا لینا دینا۔ مگر اللہ کے نزدیک یہ خاموشی بھی شریکِ جرم ہونے جیسی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی وہ حدیث یاد آتی ہے کہ جو برائی دیکھے، اسے ہاتھ سے روکے، نہ کر سکے تو زبان سے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل میں برا جانے — اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔

کہیں ہم بھی اُن خاموش تماشائیوں میں نہ لکھ دیے جائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these