جب بھی میں سفر پر نکلتا ہوں تو میرے اردگرد کے لوگ اکثر ایک ہی بات پوچھتے ہیں: کتنے ملک دیکھے ہیں؟ کتنی جگہوں پر گئے ہو؟ اور میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر سفر صرف گنے جانے والے ممالک اور پاسپورٹ پر لگنے والی مہروں کا نام ہے تو پھر یہ محض جغرافیہ ہے۔ اصل سفر وہ ہے جو انسان کے اندر کچھ بدل دے۔
مجھے یاد ہے، ایک بار ایک شور بھرا بازار دیکھا۔ لوگ بھاگ دوڑ میں مصروف، کوئی سودا کر رہا تھا، کوئی گاہک کو لبھا رہا تھا۔ میں رکا اور سوچا: یہ بازار صرف شور نہیں، یہ انسانی جدوجہد اور تخلیق کی تصویر ہے۔ پھر ایک اور سفر میں ایک خاموش جھیل کے کنارے بیٹھا۔ پانی پر ہلکی لہریں تھیں، ہوا چل رہی تھی۔ اس لمحے نے مجھے سکون اور ٹھہراؤ سکھایا۔ کسی قدیم کھنڈر کے سامنے کھڑا ہوا تو احساس ہوا کہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنتیں بھی مٹ جاتی ہیں، لیکن اقدار اور سچائی ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔
قرآن بھی بار بار ہمیں دعوت دیتا ہے کہ زمین پر نکلو، سفر کرو، اور غور کرو کہ تم سے پہلے لوگوں کا انجام کیا ہوا۔ جب میں نے اس آیت پر سوچا تو جانا کہ سفر صرف تصویریں لینے یا خوبصورت مناظر دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ سبق حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر ہم غور نہ کریں تو ہم صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر غور کریں تو پہاڑ ہمیں صبر سکھاتے ہیں، سمندر عاجزی کا سبق دیتے ہیں، اور سورج کا غروب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر انجام کے بعد ایک نیا آغاز ہوتا ہے۔
میں نے یہ سیکھا ہے کہ سفر اگر غور و فکر کے بغیر ہو تو یہ صرف جغرافیہ ہے — فاصلے طے ہوتے ہیں مگر اندر کچھ نہیں بدلتا۔ لیکن جب انسان رک کر سوچتا ہے تو ہر راستہ، ہر منظر اور ہر ملاقات ایک استاد بن جاتی ہے۔ اور شاید سب سے لمبا سفر وہ ہے جو ہم اپنے اندر طے کرتے ہیں، نہ کہ وہ جو دنیا کے نقشے پر۔