جب انٹرنیٹ آیا تھا تو ہمیں لگا تھا کہ اب علم کے دروازے کھل جائیں گے، سوچ کے نئے جہان سامنے آئیں گے اور ہر شخص اپنی مرضی سے کتاب پڑھ سکے گا، فلم دیکھ سکے گا یا اپنی پسند کا مواد منتخب کر سکے گا۔ خیال یہ تھا کہ یہ آزادی ہمیں زیادہ باشعور، زیادہ بیدار اور زیادہ طاقتور بنا دے گی۔ مگر ہوا یہ کہ ہم ایک ایسی دنیا میں داخل ہو گئے جہاں سب کچھ ہے مگر سب کچھ خالی ہے۔
ہم نے ایک ایسا معاشرہ تراش لیا ہے جہاں صرف تفریح باقی رہ گئی ہے۔ اور وہ بھی ایسی تفریح جس میں نہ کوئی پیغام ہے، نہ کوئی سچائی، نہ کوئی سیکھنے کی روشنی۔ دن رات اسکرینوں پر وہی ولاگز چل رہے ہیں: کسی نے بالوں کا رنگ بدل لیا، کسی نے نئی گاڑی لے لی، کسی نے فون کا تازہ ماڈل خرید لیا۔ لاکھوں لوگ ان سب معمولی باتوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، جیسے یہی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہو۔ اور تو اور، اب تو سہاگ رات سے لے کر حمل کے مختلف مراحل تک سب کچھ دکھایا جا رہا ہے۔
نوجوان ان ویڈیوز کو دیکھ کر اپنی زندگیوں کا حساب لگاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اصل خوشی انہی چیزوں میں ہے، انہی مہنگی گھڑیوں اور گاڑیوں میں، انہی سجے ہوئے ولاگز میں۔ مگر جو وہ بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ سب صرف ایک دکھاوا ہے، ایک تراشیدہ پردہ ہے۔ حقیقت کے دکھ اور زندگی کے زخم کبھی ان ولاگز کا حصہ نہیں بنتے۔ کیمرہ صرف وہی دکھاتا ہے جو بیچنے کے قابل ہو۔
اسی فریب نے ہمارے بچوں کے دلوں میں حسرت اور مایوسی بھر دی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے پاس یہ سب نہیں تو ان کی زندگی ادھوری ہے۔ وہ اپنے آپ کو کمتر سمجھتے ہیں، اور اسی تقابل میں ان کا سکون، ان کی ہنسی، ان کا بچپن سب کھو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خوشی ہمیشہ محنت اور جدوجہد کے راستے سے آتی ہے۔ تکلیف کے بغیر سکون کا ذائقہ سمجھ نہیں آتا۔ پہاڑ پر چڑھنے کی تھکن کے بعد ہی چوٹی کی ہوا میٹھی لگتی ہے۔ لیکن آج کا نوجوان ہر لمحہ آسانی چاہتا ہے، ہر پل ایک فوری خوشی۔ وہ خاموشی سے ڈرتا ہے، تنہائی سے بھاگتا ہے، اپنے اندر کی آواز سننے سے گھبراتا ہے۔
یہ صرف ولاگرز کا قصور نہیں، یہ قصور ہمارا بھی ہے۔ ہم ہی ہیں جو ان کے بنائے ہوئے تماشوں کو دیکھ کر انہیں کامیاب بناتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اپنی توجہ ایسے مواد پر مرکوز کریں جو ہمارے دل و دماغ کو جِلا دے، جو ہمیں بہتر انسان بنا دے، تو یہ کھوکھلا تماشا خود ہی دم توڑ دے گا۔
زندگی کی اصل خوبصورتی اس کے چیلنجز میں ہے، اس کی خاموشیوں میں ہے، اس کے دکھوں میں ہے۔ نیلا آسمان دیکھنے، دریا کی آواز سننے اور فطرت کے قریب بیٹھنے میں وہ سکون ہے جو کسی ویڈیو کے لاکھوں ویوز میں نہیں۔ مگر ہم نے اپنی نسلوں کو اس سادہ سچائی سے دور کر دیا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو دوبارہ یہ سبق دیں کہ اصل زندگی اسکرین پر نہیں، اسکرین کے باہر ہے۔ خوشی خریدی نہیں جاتی، یہ محنت اور صبر سے ملتی ہے۔ اور اگر ہم نے یہ نہ سمجھا تو ایک دن یہ مصنوعی روشنی ہمارے ہاتھوں میں صرف اندھیرا چھوڑ جائے گی۔