دو مارچ 2024 کی صبح، قطر میں ہمارے سفر کا تیسرا دن شروع ہوا۔ صبح ہم دوحہ کے مشہور ساحلی راستے “کورنیش” پر نکلے۔ سمندر کے کنارے ٹہلنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ ایک طرف نیلا پانی اور دوسری طرف بلند و بالا عمارتیں، یوں لگتا تھا جیسے جدیدیت اور قدرت ایک ہی منظر میں اکٹھی ہو گئی ہوں۔ خاص طور پر شیریٹن ہوٹل کے قریب کا حصہ تو اور بھی خوبصورت لگا۔ یہ ہوٹل نہ صرف قطر کی پہلی بڑی عمارتوں میں سے ہے بلکہ آج بھی اپنی منفرد ڈیزائن کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ وہاں بیٹھ کر ہم نے کافی دیر سمندر کو دیکھا اور یوں لگا جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی علاقے میں کشتیاں اور جیٹ اسکی کرائے پر لینے کی سہولت بھی موجود ہے۔ سیاح یہاں بوٹ رائیڈ یا جیٹ اسکی کے ذریعے سمندر میں ایڈونچر کا مزہ لیتے ہیں۔ ہم نے تو کچھ نہیں کیا، بس دوسروں کو دیکھتے رہے، لیکن منظر واقعی دلکش تھا۔
قطر ایک چھوٹا مگر حیران کن ملک ہے۔ خلیج کے بیچوں بیچ واقع یہ سرزمین اپنی قدیم روایات اور جدید ترقی کے امتزاج کی وجہ سے مشہور ہے۔ ایک طرف صدیوں پرانی بدوی ثقافت، اونٹوں کی دوڑ، موتیوں کا پرانا کاروبار اور عربی موسیقی ہے، تو دوسری طرف دنیا کے جدید ترین اسٹڈیمز، بلند و بالا ٹاورز اور شاندار مالز۔ یہاں کا سب سے خاص پہلو یہ ہے کہ چھوٹے سے رقبے کے باوجود یہ ملک سیاحت کے ہر رنگ کو سمیٹے ہوئے ہے—ساحل، صحرا، بازار، جدید عمارتیں اور ثقافتی نشان سب ایک ساتھ۔ یہی وہ امتزاج ہے جو ہر آنے والے کو قطر کے بارے میں کچھ نیا سیکھنے اور دیکھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اس کے بعد ہم “کنٹینر سٹی” گئے۔ پہلی نظر میں تو یہ جگہ بس رنگ برنگے ڈبوں کا مجموعہ لگتی ہے، مگر اندر جا کر احساس ہوا کہ کس طرح پرانے کنٹینروں کو نئے انداز میں کیفے، دکانوں اور گیلریوں میں بدلا گیا ہے۔ یہ جگہ محض سیر و تفریح کے لیے نہیں بلکہ اس کا ہر کونا یہ احساس دلاتا ہے کہ پرانی چیزوں کو نئی تخلیقی سوچ کے ساتھ کس طرح کارآمد اور دلکش بنایا جا سکتا ہے۔ وہاں کا ہلکا پھلکا ماحول اور منفرد اندازِ تعمیر ہمیں خاص طور پر بھا گیا۔
اس کے بعد باری تھی ہمارے بُک کیے گئے ہوٹل “پلازا اِن” کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہوٹل ہم نے رہائش کے لیے نہیں بلکہ صرف ویزا کی شرط پوری کرنے کے لیے آن لائن بُک کیا تھا۔ ہم وہاں زیادہ دیر نہیں رُکے، بس کمرہ دیکھا، تھوڑا آرام کیا اور سب سے زیادہ واش روم استعمال کیا۔ اصل قیام تو سلمان کے اپارٹمنٹ میں تھا۔ ہم بار بار یہی سوچتے رہے کہ ہوٹل جتنا بھی لگژری ہو، لیکن دوست کے گھر کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اپارٹمنٹ کی گرمجوشی اور ہنسی مذاق کا مزہ ہی الگ ہے۔
رات کے کھانے کے لیے ہم “مدائن الشام” گئے۔ وہاں کا کھانا واقعی زبردست تھا۔ فلافل، شاورما، فتوش، حمص اور اچار—ہر چیز اپنی اصل عربی خوشبو اور ذائقے کے ساتھ پیش کی گئی۔ خاص طور پر فلافل کی خستگی اور حمص کا مزہ آج تک یاد ہے۔ کھانے کے ساتھ ساتھ ریستوران کا ماحول بھی اتنا شاندار تھا کہ لگا جیسے ہم واقعی شام یا لبنان کے کسی کونے میں بیٹھے ہوں۔ کھانے کے بعد ایک ہی بات منہ سے نکلی — صوفی، تو آج واقعی چھا گیا ہے
یوں قطر کا تیسرا دن بھی خوبصورت مناظر، نئی جگہوں اور مزیدار کھانوں کے ساتھ یادگار لمحوں میں بدل گیا۔ یہ دن ہمیں بار بار یاد آتا ہے اور لگتا ہے جیسے اس سفر کا ایک خاص باب تھا۔









































